امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سخت مؤقف اور عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنقید کے بعد یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے پہلی مرتبہ ملک میں انتخابات کرانے کی مشروط منظوری دے دی ہے۔ زیلنسکی نے ایک اہم بیان میں کہا کہ یوکرین جنگ کے باوجود جمہوری عمل کو برقرار رکھنا چاہتا ہے، تاہم موجودہ صورتحال میں انتخابات اسی وقت ممکن ہیں جب امریکا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی مشترکہ طور پر ایسے سکیورٹی انتظامات کی ضمانت دیں جو روسی حملوں کے خطرات کے باوجود پورے انتخابی عمل کو مکمل تحفظ فراہم کر سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر مغربی اتحادی ٹھوس سکیورٹی گارنٹیز دے دیں تو یوکرین اگلے 60 سے 90 دن میں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے پوری طرح تیار ہے۔
زیلنسکی نے یہ بھی انکشاف کیا کہ یوکرین اور یورپی شراکت دار ممالک نے جنگ بندی اور مستقبل کے سیاسی راستے سے متعلق ایک نظرثانی شدہ جامع امن منصوبہ تیار کر لیا ہے۔ یہ دستاویز چند روز میں واشنگٹن کے سامنے پیش کی جائے گی، جس کا مقصد امریکا اور یورپی اتحاد کے درمیان ایک نیا سفارتی اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔
ان کے مطابق امن منصوبے کے بنیادی نکات لندن میں ہونے والے اہم مذاکرات میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی شمولیت کے ساتھ طے پائے، جہاں یورپی رہنماؤں نے یوکرین کی سفارتی اور دفاعی حمایت کو مزید مضبوط بنانے کا عزم ظاہر کیا۔ زیلنسکی کے مطابق امریکا اس بار "حقیقی اور قابلِ عمل سکیورٹی اقدامات” چاہتا ہے، جو مستقبل میں روسی دباؤ کے مقابلے کے لیے یوکرین کو زیادہ مضبوط بنیاد فراہم کر سکیں۔
بین الاقوامی تجزیہ کاروں کے مطابق زیلنسکی کے اس غیر معمولی بیان نے نہ صرف یوکرین کی داخلی سیاست میں نئی ہلچل پیدا کر دی ہے بلکہ روس—یوکرین تنازع کی سفارتی بساط کو بھی تیزی سے بدل دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انتخابات کی مشروط منظوری یوکرین کی جمہوری ساکھ کو عالمی سطح پر زیادہ نمایاں کرے گی، جبکہ سکیورٹی گارنٹیز کی شرط امریکا اور یورپ پر اضافی دباؤ ڈالے گی۔ اسی طرح امن منصوبے کی نئی دستاویز مستقبل میں روس کے ساتھ ممکنہ مذاکرات کے لیے یوکرین کی حکمتِ عملی کا اہم حصہ ثابت ہو سکتی ہے۔
تجزیہ کارں کے مطابق یہ فیصلہ یوکرین کے سیاسی سفر کا ایک اہم موڑ ہے جو یا تو اسے جنگ سے نکلنے کی راہ دکھا سکتا ہے یا اسے مزید سخت سفارتی اور عسکری چیلنجز کی طرف دھکیل سکتا ہے۔
