آسٹریا کی پارلیمنٹ نے جمعرات کے روز بھاری اکثریت سے ایک متنازعہ قانون منظور کیا ہے، جس کے تحت چودہ برس سے کم عمر لڑکیوں کے لیے اسکولوں میں سر پر اسکارف (حجاب) پہننے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
حکومت کے مطابق اس اقدام کا مقصد لڑکیوں کو مذہبی یا سماجی جبر سے بچانا ہے، تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں اور ماہرین نے اس قانون کو امتیازی اور معاشرتی تقسیم کو بڑھانے والا قرار دیا ہے۔
قدامت پسند حکومت نے یہ قانون مہاجرین مخالف جذبات میں اضافے اور بڑھتے ہوئے سیاسی دباؤ کے پیش نظر تجویز کیا تھا، جبکہ اس سے قبل 2019 میں پرائمری اسکولوں میں حجاب پر پابندی کو آئینی عدالت نے منسوخ کر دیا تھا۔ نئے قانون کے مطابق چودہ برس سے کم عمر لڑکیوں کے لیے وہ تمام حجاب، جو اسلامی روایت کے مطابق سر ڈھانپتا ہو، اسکولوں میں ممنوع ہوگا، اور اس میں برقع سمیت دیگر اقسام کے سر ڈھانپنے والے پردے بھی شامل ہیں۔
فروری سے ایک آزمائشی مرحلہ شروع ہوگا، جس میں اساتذہ، والدین اور بچوں کو نئے قواعد سے آگاہ کیا جائے گا، اور ابتدائی طور پر خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا نہیں دی جائے گی، تاہم مسلسل خلاف ورزی پر والدین کو 150 سے 800 یورو جرمانہ ہو سکتا ہے۔ حکومت کے مطابق تقریباً 12 ہزار لڑکیاں اس قانون سے متاثر ہوں گی۔
جمعرات کو ہونے والی بحث کے دوران صرف اپوزیشن جماعت گرین پارٹی نے اس پابندی کے خلاف ووٹ دیا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں، خاص طور پر ایمنسٹی انٹرنیشنل، اسے "مسلم لڑکیوں کے خلاف واضح امتیاز” قرار دے رہی ہیں، جبکہ مہاجرین مخالف انتہائی دائیں بازو کی فریڈم پارٹی کا کہنا ہے کہ پابندی ناکافی ہے اور اس کا دائرہ کار تمام طلبہ، اساتذہ اور دیگر اسکول کارکنوں تک بڑھایا جانا چاہیے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ قانون نہ صرف مذہبی آزادی پر سوالیہ نشان ہے بلکہ بچوں کی روزمرہ زندگی اور تعلیمی ماحول میں الجھن پیدا کرنے والا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
