اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی برائے انسدادِ تشدد ایلس جل ایڈورڈز نے پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کی حراست سے متعلق سنگین خدشات کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی حکومت سے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر سامنے آنے والی معلومات درست ہیں تو یہ صورتِ حال شدد یا غیر انسانی اور ہتک آمیز سلوک کے زمرے میں آتی ہے، جس کی بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین میں سخت ممانعت ہے۔
ایڈورڈز نے جمعہ کے روز جاری اپنے بیان میں کہا کہ سابق وزیراعظم کی حراست کے حالات عالمی معیارات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ان کے مطابق عمران خان کوروزانہ 23 گھنٹے تنہائی میں رکھنے، بیرونی دنیا سے رابطہ محدود ہونے اور مسلسل نگرانی جیسے انتظامات نے سنگین تشویش پیدا کر دی ہے۔
عمران خان کو 5 اگست 2023 کو گرفتاری کے بعد ابتدائی طور پر اٹک جیل منتقل کیا گیا تھا جہاں سہولیات محدود تھیں۔ اسی بنا پر انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے اڈیالہ جیل منتقل کیے جانے کی استدعا کی، جس پر عدالت نے 23 ستمبر 2023 کو منتقلی کے احکامات دیے۔
گزشتہ کئی ہفتوں کے دوران عمران خان کی صحت، ذہنی حالت اور جیل میں سہولیات کے بارے میں مختلف حلقوں خصوصاً پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے شدید تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا، جبکہ حکومتی اداروں کی جانب سے ان خدشات کی مسلسل تردید کی جاتی رہی۔ اڈیالہ جیل حکام کے مطابق عمران خان مکمل طور پر صحت یاب ہیں اور کسی قسم کی غیر معمولی صورتحال نہیں۔
اسی دوران عمران خان کی بہن عظمیٰ خان نے دسمبر کے آغاز میں ان سے ملاقات کے بعد بتایا کہ ان کی صحت تسلی بخش ہے۔ تاہم، اب اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی کے تازہ بیان نے ایک بار پھر اس بحث کو شدید کر دیا ہے۔
ایلس جل ایڈورڈزنے کہاکہ مطابق اڈیالہ جیل منتقلی کے بعد عمران خان کو مبینہ طور پر روزانہ 23 گھنٹے تنہائی میں رکھا جا رہا ہے، جو نہ صرف غیر انسانی بلکہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ علاوہ ازیں، ان کے سیل میں قدرتی روشنی، وینٹی لیشن، مناسب درجہ حرارت، صفائی، اور ماحولیات کے فقدان کی شکایات بھی سامنے آئی ہیں۔ یون رپورٹ کے مطابق عمران خان کو گھٹن، بدبو، کیڑوں، متلی, قے اور وزن میں کمی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
مزید برآں، ایڈورڈز نے کہا کہ عمران خان کو ضروری طبی سہولیات فراہم نہیں کی جا رہیں اور حکام ان کے ذاتی معالجین سے ملاقات کی اجازت دیں۔
حکومتی مؤقف ملاقاتیں اس لیے نہیں کرائی گئیں کہ وہ تحریک چلانے کو کہیں گے۔گزشتہ ماہ حکومتی وزرا وزیراعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ اور وزیرِ مملکت داخلہ طلال چوہدری نے اعتراف کیا تھا کہ عمران خان کی اہل خانہ اور قائدین سے ملاقاتیں اس خوف کے باعث محدود کی گئی ہیں کہ وہ انہیں سیاسی تحریک شروع کرنے کی ہدایت دے سکتے ہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات کی جانب سے ابھی تک اس معاملے پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ایلس جل ایڈورڈز کا بیان سامنے آنے کے بعد پاکستان پر عالمی توجہ ایک بار پھر مرکوز ہو گئی ہے، جبکہ یہ معاملہ آئندہ دنوں میں سفارتی اور سیاسی سطح پر مزید گرما سکتا ہے۔
