امریکی کانگریس نے گزشتہ روز شام پر سابق صدر بشار الاسد کے دور میں عائد کردہ پابندیاں، جو سیزر ایکٹ 2019 کے تحت لگائی گئی تھیں، مستقل طور پر ختم کر دی ہیں۔ اس فیصلے سے جنگ سے تباہ حال شام میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی واپسی اور اقتصادی سرگرمیوں کی بحالی کے لیے راستہ ہموار ہو گیا ہے۔ یاد رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سے قبل دو بار ان پابندیوں کا نفاذ معطل کیا تھا، تاہم شام کے صدر احمد الشرع نے ان کی مستقل منسوخی کا مطالبہ کیا تھا تاکہ عالمی کاروباری اداروں کو شام میں سرمایہ کاری کے دوران قانونی خطرات لاحق نہ ہوں۔
سینیٹ نے دفاعی پیکیج کے طور پر سیزر ایکٹ کی منسوخی کے حق میں 77 ووٹ دیے، جبکہ 20 ووٹ مخالفت میں آئے۔ یہ قانون پہلے ہی ایوانِ نمائندگان کی جانب سے منظور ہو چکا ہے اور توقع ہے کہ صدر ٹرمپ اس پر دستخط کر دیں گے۔ سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کی اعلیٰ ڈیموکریٹ سینیٹر جین شاہین نے کہا کہ اس وسیع پیمانے پر دونوں جماعتوں کی حمایت یافتہ منسوخی سے شامی عوام کو کئی عشروں کی تکالیف کے بعد تعمیرِ نو کا حقیقی موقع فراہم کرنے میں مدد ملے گی۔
دمشق نے بھی اس فیصلے کو اہم موڑ قرار دیا ہے۔ شام کے وزیرِ خارجہ اسعد الشیبانی نے کہا کہ ہم امریکی سینیٹ کی طرف سے شامی عوام کی حمایت کرنے اور سیزر ایکٹ منسوخ کرنے کے لیے ووٹ دینے پر شکر گزار ہیں۔ یہ اقدام ملک اور عالمی برادری کے درمیان تعاون اور شراکت داری کے نئے راستے کھولے گا۔
سیزر ایکٹ کا مقصد الاسد کے دور میں جیلوں میں ہونے والے مظالم کو دستاویزی شکل دینا اور سرمایہ کاری پر غیر ملکی پابندیاں عائد کرنا تھا۔ اس ایکٹ کی وجہ سے شام عالمی بینکاری نظام سے کٹ گیا اور ملک میں سرمایہ کاری مکمل طور پر رک گئی۔ تاہم اب اس کے ختم ہونے سے شام میں تعمیرِ نو، سرمایہ کاری، اور معاشی سرگرمیوں کی راہیں دوبارہ کھل جائیں گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے شام کی اقتصادی بحالی میں مدد ملے گی، غیر ملکی سرمایہ کار دوبارہ ملک میں داخل ہوں گے، اور معاشی ترقی کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ احمد الشرع، جو اب عالمی کاروباری برادری سے تعلقات بہتر کرنے کے عزم میں ہیں، نے اس اقدام کو شام کے لیے تاریخی اہمیت کا حامل قرار دیا اور بتایا کہ یہ دنیا کے ساتھ روابط کو مزید مضبوط کرے گا۔
