اکثر بڑی کامیابیوں کا آغاز کسی بڑی سرمایہ کاری یا طویل منصوبہ بندی سے نہیں بلکہ ایک سادہ سے خیال سے ہوتا ہے، اور یہی کہانی امریکہ کے ایک نوجوان مائیکل سیٹرلی کی بھی ہے جس نے محض اٹھارہ برس کی عمر میں سوشل میڈیا کی طاقت، تخلیقی سوچ اور جدید ٹیکنالوجی کو یکجا کر کے ایک چھوٹے سے آئیڈیا کو ایک باقاعدہ کاروباری سلطنت میں بدل دیا۔ آج وہ ای کامرس اور ایکسسریز کی دنیا میں ایک نئی مثال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، حالانکہ چند ماہ پہلے تک اس کا نام زیادہ لوگوں کے لیے اجنبی تھا۔
سیٹرلی کی زندگی میں اصل موڑ اس وقت آیا جب اس نے انسٹاگرام پر ایک مختصر مگر منفرد وڈیو شیئر کی۔ اس وڈیو میں وہ ایک خاص قسم کے ہولڈر کی مدد سے ڈاکٹر پیپر کا کین پیتا ہوا نظر آتا ہے۔ بظاہر یہ ہولڈر عام مشروب ہولڈرز جیسا ہی دکھائی دیتا ہے، مگر اس میں ایک ایسا دلچسپ اور مزاحیہ عنصر شامل تھا جس نے دیکھنے والوں کو چونکا دیا۔ جیسے ہی وہ پہلا کین ختم کرتا ہے، اچانک ایک اور کین سامنے آ جاتا ہے۔ وہ ہولڈر کو ایک مخصوص انداز میں جھٹکا دیتا ہے، پہلا کین ایسے اچھل کر دور جا گرتا ہے جیسے کوئی کارتوس ہو، اور وہ فوراً دوسرے کین سے پینا شروع کر دیتا ہے۔ یہی منظر اس وڈیو کی پہچان بن گیا۔
سیٹرلی نے اس پروڈکٹ کو “ٹیکٹیکل ری لوڈر” کا نام دیا، اور یہی نام اور انداز سوشل میڈیا صارفین کو بے حد پسند آیا۔ اس مختصر وڈیو نے انسٹاگرام پر ریکارڈ توڑ مقبولیت حاصل کی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کے ویوز کی تعداد پانچ کروڑ سے تجاوز کر گئی۔ یہ محض ایک وائرل لمحہ نہیں تھا بلکہ اسی ایک وڈیو نے اس نوجوان کی زندگی کا رخ بدل کر رکھ دیا۔
وڈیو کی کامیابی کے بعد سیٹرلی نے اپنے آئیڈیا کو محض تفریح تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے ایک مکمل کاروبار کی شکل دینے کا فیصلہ کیا۔ یوں اس کے نئے برانڈ “کروز کپ” کی بنیاد پڑی، جو تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے تیار کی گئی مصنوعات فروخت کرتا ہے۔ اگرچہ اس برانڈ کے تحت مختلف پروڈکٹس بنائی جا رہی ہیں، مگر سب سے زیادہ توجہ اور شہرت اسی منفرد مشروب ہولڈر نے حاصل کی جو سوشل میڈیا پر بحث کا موضوع بن گیا۔
اعداد و شمار اس کامیابی کی واضح تصویر پیش کرتے ہیں۔ صرف گزشتہ نومبر کے مہینے میں سیٹرلی نے تقریباً تین لاکھ ڈالر کی فروخت کی، جیسا کہ شاپی فائی کے ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے، جس تک بزنس انسائیڈر کو رسائی حاصل ہوئی۔ یہ اعداد و شمار کسی بڑے کاروباری گروپ کے نہیں بلکہ ایک اٹھارہ سالہ نوجوان کے ہیں، جس نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو درست سمت میں استعمال کیا۔
اگر اس نوجوان کے ماضی پر نظر ڈالی جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اس کی کاروباری سوچ اچانک پیدا نہیں ہوئی بلکہ بچپن ہی سے اس میں موجود تھی۔ محض دس برس کی عمر میں وہ اپنے محلے میں گھوم پھر کر لوگوں کے دروازے کھٹکھٹاتا اور لان کی گھاس کاٹنے کی پیشکش کرتا تھا۔ اگرچہ اس ابتدائی کوشش میں اسے خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی، مگر اس نے ہار ماننے کے بجائے تجربہ جاری رکھا۔ وقت کے ساتھ اس نے ای کامرس کی دنیا میں قدم رکھا اور مختلف چھوٹے منصوبوں پر کام شروع کیا۔
ان ابتدائی منصوبوں میں ایک ایسا پروڈکٹ بھی شامل تھا جو ریت سے بچاؤ کے لیے بنایا گیا تھا۔ بعد ازاں اس نے جوتوں کے ایکسسریز کا ایک برانڈ “سولفلی” لانچ کیا، جس نے انسٹاگرام پر خاصی توجہ حاصل کی اور اسے آن لائن مارکیٹنگ اور صارفین کے رویّے کو سمجھنے میں مدد ملی۔ یہی تجربات آگے چل کر اس کے بڑے آئیڈیا کی بنیاد بنے۔
اصل بریک تھرو سیٹرلی کو اس وقت ملا جب اس نے تھری ڈی پرنٹنگ کی دنیا کو سنجیدگی سے دریافت کیا۔ ہائی اسکول میں ڈیزائن کی کلاس کے دوران اس نے اس ٹیکنالوجی کے بنیادی اصول سیکھے اور فوراً سمجھ گیا کہ یہ نئے کاروباری افراد کے لیے کتنی طاقتور ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کے مطابق تھری ڈی پرنٹنگ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں داخلے کی لاگت نسبتاً کم ہے۔ محض سو ڈالر میں ایک بنیادی تھری ڈی پرنٹر خریدا جا سکتا ہے، جبکہ بیس ڈالر میں خام مال کی رول دستیاب ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے ڈیزائن بنانا بھی اب پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ آسان ہو چکا ہے۔
جب اس کے مشروب ہولڈر کی مانگ اچانک بڑھی تو اس کی روزمرہ زندگی بھی مکمل طور پر بدل گئی۔ نیویارک میں واقع اس کا گھر آہستہ آہستہ ایک چھوٹی فیکٹری میں تبدیل ہو گیا۔ تہہ خانے میں تھری ڈی پرنٹرز چلتے رہتے، ڈائننگ روم میں پیکنگ کا کام ہوتا، جبکہ بیڈروم میں پروڈکٹس کی فوٹوگرافی کی جاتی۔ کچھ عرصے بعد جب کام مزید بڑھا تو اس نے ایک باقاعدہ گودام منتقل ہو کر کام شروع کیا، جہاں اب ایک سو تیس سے زیادہ تھری ڈی پرنٹرز موجود ہیں۔
سیٹرلی کے منصوبے یہیں ختم نہیں ہوتے۔ اس کا ارادہ ہے کہ 2026 کے وسط تک وہ فولاد سے بنی مصنوعات بھی تیار کرے، جس کے لیے وہ جدید مشینری اور نئے ڈیزائنز پر کام کر رہا ہے۔ اس کے مطابق ترقی کا راز یہی ہے کہ انسان خود کو ایک سطح پر محدود نہ رکھے بلکہ مسلسل آگے بڑھنے کے راستے تلاش کرتا رہے۔
اپنے وائرل آئیڈیا کے بارے میں بات کرتے ہوئے سیٹرلی بتاتا ہے کہ اس نے مشہور کمپنی یٹی کی مصنوعات کو بغور دیکھا اور سوچا کہ ان میں کیا بہتری لائی جا سکتی ہے۔ اسی سوچ کے تحت اس نے اپنے ہولڈر میں تیز رفتار ری لوڈنگ کی خصوصیت شامل کی، جو اسے دوسروں سے مختلف بناتی ہے۔ بعد ازاں صارفین کی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نے ڈبل ہولڈر کا ورژن بھی تیار کیا۔ اس کا ماننا ہے کہ کامیاب پروڈکٹ بنانے کے لیے صارفین کی آواز سننا بے حد ضروری ہے۔
اگرچہ ہر کامیابی کے ساتھ تنقید بھی آتی ہے، اور سیٹرلی کو بھی اس سے واسطہ پڑا۔ بعض افراد نے یہ اعتراض کیا کہ یہ ہولڈر مشروب کو ٹھنڈا رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ مگر اس نوجوان نے اس تنقید کو حوصلہ شکنی کے بجائے سیکھنے کا ذریعہ بنایا۔ اس کے مطابق ہر آئیڈیا شروع میں مکمل نہیں ہوتا، اصل بات یہ ہے کہ اسے حقیقت کا روپ دیا جائے اور پھر وقت کے ساتھ بہتر بنایا جائے۔
سیٹرلی کا پیغام سادہ مگر طاقتور ہے۔ وہ نوجوانوں کو مشورہ دیتا ہے کہ اگر ان کے ذہن میں کوئی خیال ہے تو انتظار نہ کریں بلکہ فوراً اس پر کام شروع کریں۔ پہلی کوشش میں ناکامی کا سامنا ہو سکتا ہے، مسائل آئیں گے اور راستہ آسان نہیں ہو گا، مگر مستقل مزاجی اور محنت کے ساتھ وہ ایک لمحہ ضرور آ سکتا ہے جو نہ صرف کاروبار بلکہ پوری زندگی کا رخ بدل دے۔ اس کی اپنی کہانی اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ ایک سادہ سی انسٹاگرام وڈیو بھی درست سوچ اور عمل کے ساتھ ایک چھوٹی سی سلطنت کی بنیاد بن سکتی ہے۔
