یورپی یونین نے برسلز میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں ایک دن سے زائد طویل اور پیچیدہ مذاکرات کے بعد یوکرین کو 105 ارب یورو (تقریباً 115 ارب ڈالر) کا بلا سود قرض دینے پر اتفاق کر لیا ہے، جسے یورپی رہنماؤں نے روس کے خلاف جنگ اور یوکرین کی معاشی بقا کے لیے ایک اہم موڑ قرار دیا ہے۔
یورپی یونین کے سربراہ انتونیو کوسٹا نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اعلان کرتے ہوئے لکھا، ہم نے عزم کیا، ہم نے فراہم کر دیا اور واضح کیا کہ یہ قرض یورپی یونین کے مشترکہ بجٹ کی ضمانت کے تحت دیا جائے گا اور آئندہ دو برسوں کے دوران یوکرین کی فوجی اور معاشی ضروریات پوری کرے گا۔
اجلاس کے دوران یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے یورپی رہنماؤں پر زور دیا تھا کہ یورپی یونین میں منجمد 246 ارب ڈالر کے روسی اثاثوں کو براہِ راست یوکرین کے لیے استعمال کیا جائے، تاہم بیلجیم، جہاں ان اثاثوں کا بڑا حصہ رکھا گیا ہے، نے ذمہ داری کی مشترکہ تقسیم سے متعلق ضمانتوں کا مطالبہ کیا جو دیگر رکن ممالک کے لیے قابلِ قبول نہ ہو سکا، جس کے بعد قرض کے فارمولے پر اتفاق کیا گیا۔
جرمن چانسلر فریڈرش میرس نے اس فیصلے کو جنگ کے خاتمے کے لیے ایک فیصلہ کن پیغام قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بلا سود قرض آئندہ دو برسوں کے لیے یوکرین کی دفاعی اور بجٹ ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے، اور ان کے بقول روسی صدر ولادیمیر پوٹن تب ہی رعایتیں دینے پر مجبور ہوں گے جب انہیں یہ احساس ہو جائے گا کہ جنگ جاری رکھنا فائدہ مند نہیں رہا۔
میرس نے واضح کیا کہ اگر روس ہرجانہ ادا کرنے سے انکار کرتا ہے تو بین الاقوامی قانون کے مکمل احترام کے ساتھ منجمد روسی اثاثوں سے قرض کی واپسی ممکن بنائی جائے گی۔ بیلجیم کے وزیر اعظم بارٹ ڈی ویور نے قرض کے ذریعے مدد کے فیصلے کو یورپی اتحاد کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے ’’افراتفری اور تقسیم‘‘ سے بچاؤ ممکن ہوا اور یورپی یونین متحد رہی۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے اس معاہدے کو یوکرین کی مالی معاونت میں ’’بڑی پیش رفت‘‘ قرار دیا اور کہا کہ بلا سود قرض کا یہ طریقہ، جو صرف اسی صورت میں واپس کیا جائے گا جب روس ہرجانے ادا کرے، یوکرین کی جنگی کوششوں کی مدد کا سب سے عملی اور حقیقت پسندانہ راستہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس معاہدے میں ایک حفاظتی طریقۂ کار بھی شامل ہے، جس کے تحت ہنگری، سلوواکیہ اور جمہوریۂ چیک کو کسی ممکنہ مالی نقصان سے تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ ماکروں نے یہ اشارہ بھی دیا کہ آنے والے ہفتوں میں روسی صدر پوٹن کے ساتھ دوبارہ رابطہ قائم کرنا یورپ اور یوکرین دونوں کے مفاد میں ہو سکتا ہے، بشرطیکہ اس کے لیے درست فریم ورک طے کیا جائے۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکہ کی جانب سے بھی روس اور یوکرین کے حکام کے ساتھ سفارتی سرگرمیوں میں تیزی دیکھی جا رہی ہے، تاہم فروری 2022 میں شروع ہونے والی جنگ کے خاتمے کے حوالے سے اب تک کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔
وائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار کے مطابق امریکی اور روسی حکام اس ہفتے کے آخر میں میامی میں امن منصوبے پر مزید بات چیت کریں گے، جہاں ممکنہ طور پر کریملن کے نمائندے کیرل دمتریئیف، ٹرمپ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف اور جیرڈ کشنر سے ملاقات کریں گے، جبکہ صدر زیلنسکی نے بھی اعلان کیا ہے کہ یوکرین اور امریکہ کے وفود جمعہ اور ہفتے کو واشنگٹن میں نئی بات چیت کریں گے تاکہ یوکرین کو مستقبل میں کسی ممکنہ روسی حملے سے بچانے کے لیے فراہم کی جانے والی سیکیورٹی ضمانتوں پر وضاحت حاصل کی جا سکے۔
