سعودی عرب کی حکومت نے مکہ مکرمہ میں دو پاکستانی شہریوں کو منشیات اسمگلنگ کے جرم میں سزائے موت دیے جانے کی تصدیق کی ہے، جسے حکام نے مملکت کے انسدادِ منشیات قوانین پر سختی سے عمل درآمد کی ایک مثال قرار دیا ہے۔
سعودی وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق دونوں افراد کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب سکیورٹی اداروں نے ان کے قبضے سے ہیروئن اور دیگر ممنوعہ نشہ آور اشیاء برآمد کیں، جو مختلف طریقوں سے ان کے جسم کے حصوں میں چھپا کر سعودی عرب منتقل کرنے کی کوشش کی جا رہی تھیں۔ تفتیش کے دوران شواہد کی بنیاد پر یہ ثابت ہوا کہ ملزمان نے منشیات کو غیر قانونی طور پر مملکت میں داخل کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی، جس کے بعد ان کے خلاف باقاعدہ مقدمہ درج کیا گیا۔
قانونی کارروائی مکمل ہونے کے بعد متعلقہ عدالت نے دونوں ملزمان کو قصوروار قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنائی۔ حکام کے مطابق ملزمان کو اپیل کا مکمل قانونی حق دیا گیا، تاہم ان کی اپیلیں سعودی سپریم کورٹ میں زیرِ غور آنے کے بعد مسترد کر دی گئیں۔ تمام قانونی مراحل مکمل ہونے کے بعد شاہی فرمان کے ذریعے سزا پر عمل درآمد کی منظوری دی گئی۔
سرکاری بیان میں بتایا گیا کہ دونوں پاکستانی شہریوں کو آج مکہ مکرمہ میں سزائے موت دی گئی۔ وزارتِ داخلہ نے اس موقع پر واضح کیا کہ سعودی عرب منشیات کو معاشرے کے لیے ایک سنگین خطرہ سمجھتا ہے اور عوام کی جان و مال، سماجی استحکام اور اخلاقی اقدار کے تحفظ کے لیے ایسے جرائم کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
سعودی حکام نے ایک بار پھر سخت انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ منشیات کی اسمگلنگ، ترسیل یا اس میں کسی بھی قسم کی معاونت کرنے والے افراد، چاہے ان کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو، کو سخت ترین سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حکومتی مؤقف کے مطابق اس طرح کی سزاؤں کا مقصد جرائم کی روک تھام اور دوسروں کے لیے واضح مثال قائم کرنا ہے۔
یہ واقعہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عالمی سطح پر سعودی عرب میں سزائے موت کے نفاذ پر توجہ مرکوز ہے۔ برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ریپریو کے مطابق، سعودی عرب نے مسلسل دوسرے سال سالانہ سزائے موت کی تعداد کا نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ 2025 میں اب تک کم از کم 347 افراد کو سزائے موت دی جا چکی ہے، جو 2024 میں دی گئی 345 سزاؤں سے بھی زیادہ ہے۔
سعودی حکام کا مؤقف ہے کہ سزائے موت صرف انتہائی سنگین جرائم، جیسے منشیات اسمگلنگ، دہشت گردی اور سنگین پرتشدد واقعات میں، مکمل عدالتی کارروائی کے بعد دی جاتی ہے۔ دوسری جانب، بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں ان معاملات پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں اور دنیا بھر میں سزائے موت کے استعمال پر بحث جاری ہے۔
یہ کیس سعودی عرب کے سخت قانونی نظام اور منشیات کے خلاف اس کے غیر لچکدار مؤقف کی عکاسی کرتا ہے، اور اس بات کی یاد دہانی بھی ہے کہ مملکت کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو انتہائی سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
