انقرہ :ترک میڈیا کے مطابق لیبیا کے آرمی چیف محمد علی احمد الحداد کو لے جانے والا خصوصی طیارہ ترکیہ کے دارالحکومت انقرہ سے روانہ ہونے کے کچھ ہی دیر بعد المناک حادثے کا شکار ہو گیا، جس کے نتیجے میں آرمی چیف سمیت طیارے میں سوار تمام پانچ افراد ہلاک ہو گئے۔ حادثے کا شکار ہونے والا طیارہ ڈاسالٹ فیلکن 50 (Dassault Falcon 50) تھا جو انقرہ کے ایسن بوغا ایئرپورٹ سے شام 8 بج کر 10 منٹ پر لیبیا کے دارالحکومت طرابلس کے لیے روانہ ہوا، تاہم پرواز کے دوران شام 8 بج کر 52 منٹ پر طیارے سے اچانک رابطہ منقطع ہو گیا۔
ترک وزیرداخلہ کے مطابق روانگی کے کچھ دیر بعد طیارے نے انقرہ کے نواحی علاقے حیمانہ کے قریب ہنگامی لینڈنگ کی کوشش کی تھی، مگر اس کے بعد طیارے سے دوبارہ کوئی رابطہ قائم نہ ہو سکا، جس پر فضائی حکام نے ایسن بوغا ایئرپورٹ کو احتیاطی تدابیر کے تحت عارضی طور پر بند کر دیا اور ریسکیو آپریشن شروع کر دیا گیا۔ کئی گھنٹوں کی تلاش کے بعد ریسکیو ٹیموں نے حیمانہ ضلع سے طیارے کا ملبہ برآمد کر لیا، جس سے حادثے کی تصدیق ہوئی۔
ترک میڈیا کے مطابق لیبیا کے وزیراعظم نے آرمی چیف محمد علی احمد الحداد کی ہلاکت کی باضابطہ تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ترکیہ کا اہم سرکاری دورہ مکمل کرنے کے بعد طرابلس واپس جا رہے تھے کہ یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ وزیراعظم کے مطابق طیارے میں آرمی چیف کے ساتھ لیبیا کی بری افواج کے کمانڈر، ملٹری مینوفیکچرنگ اتھارٹی کے ڈائریکٹر، چیف آف اسٹاف کے مشیر اور چیف آف اسٹاف آفس کے فوٹوگرافر بھی سوار تھے، جو طیارہ تباہ ہونے کے باعث جانبر نہ ہو سکے۔
دورۂ ترکیہ کے دوران لیبیا کے آرمی چیف نے ترکیہ کے وزیر دفاع یاسر گولر اور اپنے ترک ہم منصب سے دفاعی تعاون، فوجی تربیت اور دوطرفہ سکیورٹی امور پر اہم ملاقاتیں کی تھیں۔
حادثے کو غیر معمولی اہمیت اس لیے بھی حاصل ہے کہ اس سے محض ایک روز قبل ہی ترکیہ کی پارلیمنٹ نے لیبیا میں ترک فوج کی تعیناتی میں مزید دو برس کی توسیع کی منظوری دی تھی، جس کے بعد یہ واقعہ خطے میں سکیورٹی اور سیاسی حلقوں میں شدید توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ ترک حکام کے مطابق طیارہ حادثے کی وجوہات تاحال سامنے نہیں آ سکیں، تاہم واقعے کی مکمل تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ حادثہ تکنیکی خرابی کے باعث پیش آیا یا کسی اور عنصر نے اس میں کردار ادا کیا۔
حادثے کے بعد ترکیہ اور لیبیا میں سرکاری سطح پر سوگ کی فضا پائی جاتی ہے جبکہ اعلیٰ عسکری قیادت کی ہلاکت کو لیبیا کے لیے ایک بڑا نقصان قرار دیا جا رہا ہے۔
