پاکستان کی سیاسی تاریخ کی عظیم ترین، جرأت مند اور باوقار رہنما دخترِ مشرق شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی 18ویں برسی آج پورے ملک میں نہایت عقیدت، احترام اور وقار کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔ اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنان، رہنماؤں، منتخب نمائندوں اور جمہوریت سے وابستہ افراد کی بڑی تعداد سندھ کے تاریخی شہر لاڑکانہ میں واقع گڑھی خدا بخش پہنچی، جہاں بھٹو خاندان کے مزارات پر فاتحہ خوانی اور پھولوں کی چادریں چڑھائی گئیں۔
گڑھی خدا بخش اور اطراف کے علاقوں میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں، جبکہ ملک بھر سے آنے والے جیالوں کے استقبال کے لیے مختلف مقامات پر استقبالیہ کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔ سرخ، سبز اور سیاہ پرچموں سے سجی فضاؤں میں “بینظیر زندہ ہے” اور “جمہوریت ہماری پہچان” کے نعرے گونجتے رہے۔اس موقع پر خاتونِ اول آصفہ بھٹو زرداری نے اپنی نانی فریال تالپور کے ہمراہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے مزار پر حاضری دی، پھول رکھے اور فاتحہ خوانی کی۔ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو، مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو کی قبروں پر بھی حاضری دی اور خاندانِ بھٹو کی لازوال قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔
پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری سینیٹر وقار مہدی، پارٹی کے سینئر رہنماؤں، اراکین اسمبلی اور جیالوں کی بڑی تعداد نے بھی مزارات پر حاضری دی اور شہداء کے مشن کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔حکومتِ سندھ نے شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر صوبے بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا ہے، جبکہ وزیراعظم آزاد کشمیر فیصل ممتاز راٹھور نے بھی آزاد کشمیر میں عام تعطیل کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ محترمہ بینظیر بھٹو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری مسلم دنیا میں جمہوریت اور خواتین کی قیادت کی علامت تھیں۔
محترمہ بینظیر بھٹو کی زندگی قربانیوں، صبر، استقامت اور جمہوری جدوجہد کی ایک ایسی داستان ہے جو پاکستان کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جا چکی ہے۔ ایک ایسی رہنما جنہوں نے اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کو تختۂ دار پر جاتے دیکھا، دو بھائیوں کی المناک ہلاکتوں کا صدمہ برداشت کیا، طویل آمریتوں کا مقابلہ کیا، قید و بند اور جلاوطنی کی صعوبتیں جھیلیں، مگر کبھی جمہوریت، آئین اور عوامی حقوق سے پیچھے نہیں ہٹیں۔
21 جون 1953 کو کراچی میں پیدا ہونے والی بینظیر بھٹو نے کونوینٹ آف جیزس اینڈ میری اور کراچی گرامر اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں ہارورڈ یونیورسٹی اور آکسفورڈ یونیورسٹی جیسے عالمی شہرت یافتہ اداروں سے پولیٹیکل سائنس اور بین الاقوامی قوانین میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا۔
سیاسی مبصرین کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دونوں بیٹوں کے بجائے بینظیر بھٹو کو اپنا سیاسی جانشین قرار دیا، اور تاریخ نے ثابت کیا کہ وہ فیصلہ پاکستان کی سیاست کا ایک درست اور دور اندیش فیصلہ تھا۔جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے نفاذ کے بعد بینظیر بھٹو نے بیرون ملک رہ کر آمریت کے خلاف آواز بلند کی۔ اپریل 1986 میں وطن واپسی پر لاہور سمیت مختلف شہروں میں عوامی استقبال نے آمریت کی بنیادیں ہلا دیں۔
1988 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کے بعد بینظیر بھٹو عالمِ اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ تاہم صرف 18 ماہ بعد ان کی حکومت کو برطرف کر دیا گیا۔ نومبر 1993 میں وہ دوبارہ وزیراعظم بنیں، مگر 1996 میں ایک بار پھر ان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا۔سیاسی انتقام، مقدمات اور جلاوطنی کے باوجود بینظیر بھٹو نے 2007 میں پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ 18 اکتوبر 2007 کو کراچی آمد پر ان کے استقبالی جلوس کو خودکش حملوں کا نشانہ بنایا گیا، جس میں سینکڑوں کارکن شہید اور زخمی ہوئے، مگر وہ عوام سے دور نہ ہوئیں۔
بالآخر 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسے سے واپسی پر ان پر جان لیوا حملہ کیا گیا اور یوں جمہوریت کی یہ عظیم بیٹی قوم کو سوگوار کر گئی۔شہید محترمہ بینظیر بھٹو کو لاڑکانہ کے گڑھی خدا بخش میں اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو اور بھائیوں مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو کے پہلو میں سپردِ خاک کیا گیا۔ آج 18 برس بعد بھی ان کا نام، نظریہ اور جدوجہد پاکستان کے عوام کے دلوں میں زندہ ہے۔
بینظیر بھٹو صرف ایک سیاستدان نہیں بلکہ ایک عہد، ایک نظریہ اور جمہوریت کی لازوال علامت تھیں، جن کی قربانی آنے والی نسلوں کو آئین، عوامی حاکمیت اور جمہوری اقدار کی حفاظت کا درس دیتی رہے گی۔
