سعودی وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان نے علی الصبح ایک ٹویٹ کیا جس میں انھوں نےلکھا،” یمن میں ہمارے اپنوں کے لیے ایک پیغام”۔ اس ٹویٹ میں انھوں نے کہا کہ یمن کی جائز حکومت کی درخواست کے جواب میں مملکت سعودی عرب نے اپنے برادر ممالک کو اس کی قانونی حمایت کے اتحاد میں شرکت کے لیے متحرک کیا ہے۔
انھوں نے لکھا کہ سعودی عرب نے جنوبی مسئلہ کو ایک منصفانہ سیاسی وجہ کے طور پر حل کیا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، یا اسے ذاتیات تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ مملکت نے ریاض کانفرنس میں یمن کے تمام دھڑوں کو اکٹھا کیا تاکہ یمن میں ایک جامع سیاسی حل کے لیے ایک واضح راستہ قائم کیا جا سکے، بشمول جنوبی مسئلے کے۔
مزید برآں، ریاض معاہدے نے حکومت میں جنوبی باشندوں کی شرکت کی ضمانت دی اور ان کے مقصد کے منصفانہ حل کی راہ ہموار کی، جس پر تمام فریقین نے بات چیت کے ذریعے اور طاقت کے استعمال کے بغیر اتفاق کیا ہے۔
سعودی وزیر دفاع نے لکھا ہے کہ مملکت نے اقتدار کی منتقلی کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے، جس نے جنوبی باشندوں کو ریاستی اداروں میں فعال کردار ادا کرنے کی اجازت دی۔ مملکت نے ہمیشہ کی طرح اب بھی اہل یمن کی اقتصادی مدد، ترقیاتی منصوبے، اور انسانی بنیادوں پر ہر طرح کا تعاون جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کا مقصد برادر یمنی عوام کے مصائب کو کم کرنا ہے۔ اسی طرح مملکت انھیں مضبوط بنانے اور مختلف اقتصادی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں ان کی مدد کرتی رہے گی۔
سعودی وزیر دفاع نے مزید لکھا کہ بہت سے جنوبی لیڈروں، رہنماؤں اور شخصیات نے حضرموت اور المہرہ کے صوبوں میں کشیدگی کو ختم کرنے کی کوششوں کی حمایت کی،انھوں نے امن کی بحالی، جنوبی صوبوں کو بے معنی تنازعات میں گھسیٹنے، اور بڑے چیلنجوں کو تسلیم کرنے کے لیے ایک شعوری اور دانشمندانہ کردار کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے لکھا کہ یہ سب کچھ یمن اور خطے میں اپنے اہداف کے حصول کے لیے ایک اور موقعے کا انتظار کرنے والوں کو انکار کے مترادف ہے۔
شہزادہ خالد بن سلمان نے لکھا کہ اس نقطہ نظر سے، مملکت اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ جنوبی مسئلہ کسی بھی جامع سیاسی حل میں موجود رہے گا اور اسے فراموش یا پس پشت نہیں کیا جائے گا۔ اسے اتفاق رائے، وعدوں کو پورا کرنے اور تمام یمنیوں کے درمیان اعتماد پیدا کرنے کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے، نہ کہ ایسے لاپرواہ اقدامات کے ذریعے جو صرف مشترکہ دشمن کی خدمت کریں۔
سعودی وزیر دفاع نے لکھا کہ اس نازک موڑ پر، جنوبی عبوری کونسل کے لیے وقت آگیا ہے کہ کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے سعودی اماراتی ثالثی کی کوششوں کا مثبت جواب دے کر عقل، دانشمندی، مفاد عامہ اور اتحاد کو ترجیح دی جائے، دونوں گورنریٹس کے کیمپوں سے اپنی افواج کو واپس بلایا جائے اور انہیں پرامن طریقے سے ہوم لینڈ شیلڈ فورسز اور مقامی حکام کے حوالے کیا جائے۔
دوسری جانب لبنان کے صدر جوزف عون نے جمعہ کے روز سعودی عرب کی ان کوششوں کی تحسین کی ہے جو یمن میں جنگ بندی اور استحکام لانے کے لیے مملکت کر رہی ہے۔لبنانی صدر جوزف عون نے سعودی عرب کے لیے اس تعریف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب یمن میں اتحاد ، مکالمے اور سیاسی حل کی طرف متوجہ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ تاکہ یمن کی خودمختاری ، اتحاد و یگانگت اور سماجی ڈھانچے کو نقصان سے بچایا جا سکے۔
جوزف عون نے ان جذبات کا اظہار سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ پر کیا اور مزید کہا سعودی عرب کی یہ کوششیں ظاہر کرتی ہیں کہ وہ علاقے میں ایک ذمہ دارانہ اپروچ کے ساتھ موجود ہے۔ تاکہ معاملات کو سیاسی طریقے سے حل کیا جا سکے اور کشیدگی کو بڑھنے سے روکا جا سکے۔
لبنانی صدر نے ان قوتوں کی مذمت کی جو یمنی حوثیوں کی مدد کرتے ہیں اور ان کے شراکت دار ہیں۔ ان کے بقول ان حوثیوں کی مدد کے نتیجے میں یمن میں امن کوششوں کو نقصان پہنچتا ہے۔صدر جوزف عون نے کہا وہ چاہتے ہیں کہ سعودی مملکت اس معاملے میں کامیاب ہو اور اس کی کوششیں رنگ لائیں۔
اس موقع پر انہوں نے سعودی عرب کے ساتھ لبنان کے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا یہ مضبوط اور گہرے ہیں اور علاقائی استحکام کے لیے مشرکہ کمٹمنٹ پر مبنی ہیں۔اسی روز بعدازاں شام کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں بھی سعودی عرب کی مکمل حمایت کا اعلان کیا گیا ہے اور سعودی کوششوں کو سراہا گیا ہے جو وہ یمن میں قیام امن کے لیے جاری رکھے ہوئے ہے۔
شام کے اس بیان میں یمن کے تمام متحارب فریقوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور اپنی یمنی حکومت کا ساتھ دیں۔متحدہ عرب امارات، عمان، مصر اور اردن نے بھی اس سلسلے میں بیانات جاری کر کے یمنی حکومت کی حمایت کی ہے اور امن کے لیے کوششوں کی تعریف کی ہے۔
دوسری جانب امریکہ نے یمنی فریقین سے صبرو تحمل اختیار کرنے کی اپیل کی ہے اور مشرقی یمن میں کشیدگی کم کرنے اور حالات بہتر بنانے کے لیے ریاض اور ابوظبی کی قیادت کی کوششوں کی بھرپور حمایت کا اعادہ کیا۔
واشنگٹن کے ان بیانات کے ساتھ برطانیہ کی جانب سے بھی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ یمنی حکومت کی کوششوں کی تائید سامنے آئی ہے تاکہ مشرقی یمن میں عسکری تناؤ کا سیاسی حل نکالا جا سکے۔
برطانوی حکومت میں مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے امور کے وزیرِ مملکت ہامش فالکنر نے کہا کہ ہم مشرقی یمن کی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور صدارتی قیادت کونسل کے اپنے شراکت داروں کی سفارتی کوششوں کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ جلد از جلد حل تلاش کیا جا سکے۔
بین الاقوامی مؤقف میں آنے والی تازہ پیش رفت کے تناظر میں صدارتی قیادت کونسل کے سربراہ اور مسلح افواج کے اعلیٰ کمانڈر رشاد العلیمی نے سعودی عرب کی قیادت میں قائم اتحاد سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یمنی مسلح افواج کی مدد کریں تاکہ کشیدگی پر قابو پایا جا سکے، ثالثی کے عمل کا تحفظ کیا جائے اور شہریوں کے تحفظ کے لیے ضروری عسکری اقدامات کیے جائیں۔
