میں ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتاہوں۔ جنوبی پنجاب کی چھاتی پر بہتے چناب کے مشرقی کنارےآباد ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوا۔ اسکول ،کالج، مدرسہ اور یونیورسٹی تک، اکثر مراحل طے کرچکاہوں۔
بین الاقوامی اداروں اور جامعات سے استفادہ کا موقع بھی میسر رہا۔ ہزاروں اصحاب ِ علم ودانش کا تلمّذ اختیار کیا اور سینکڑوں فاضلین کا شاگرد کہلایا، ان میں کچھ اُستاذ تھے اور اکثر ٹیچر۔
حضرت الاستاذ مولانا محمد رفیق الاثری رحمہ اللہ کے ایک جملے کا مفہوم ہے "اُستاذ وہ ہوتا ہے جو پورے ماحول اور معاشرے کا مربّی ہو” یہ اُستاذ کی بہت جامع تعریف ہے۔
اُستاذ ہوتا ہی وہ ہے جو دلوں تک رسائی حاصل کرے اور مدتوں جیے۔ زمانہ برسوں اُس کے نام کی مالا جپے اور تعظیم صدیوں اُس کی چوکھٹ پہ پہرہ دے۔
وہ زنگ و زنگار کو یاقوت و زمرد میں بدلنے والا جوہری بھی ہو اور نظریاتی نبض شناس بھی۔ استاذ کوموت نہیں آتی اور ٹیچر زندہ نہیں رہتے۔ وہ زندہ رہتاہے۔ دیکھو تو چار لفظوں کے قاری بھی ملیں گے اور چاردیواری کے نگران بھی، اُستاذ مگر الگ ہوتا ہے۔
زندگی اور تاریخ صرف اسی کو عزت دیتی ہے جو اس کامستحق ہوتا ہے۔ اور عزت کمائی جاتی ہے خریدی نہیں جاتی ۔ اِس ترازو میں کسی کا وزن دو مَن ہے تو کسی کا دو سیر۔
استاذ، طلباء کی زندگی کا حصہ بن جاتا ہے اور ٹیچر کلاس بدلنے کے بعد یاد بھی نہیں رہتا۔ پڑھانے اور سکھانے والے کی شخصیت کا وہ حصہ اُستاذ بنتا ہے جو شاگردوں کے ذہنوں کو متاثر کرتا ہے اور ان کے کردار کو اُٹھاتا ہے۔
یہی اُستاذ کی کمائی ہوتی ہے جو اسے اگلی نسلوں میں زندہ رکھتی ہے۔
مدرسہ کی تعلیم کے دوران جن اساتذہ سے پڑھنے اور سیکھنے کا موقع ملا ، ان میں ایک شیخ القرآن مولانا اللہ یار خاں رحمہ اللہ بھی تھے۔ انھیں "تھے” لکھتے ہوئے دل بوجھل ہوجاتا ہے۔ وہ ہنستے مسکراتے، بیٹا بیٹا کہتے آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔
پیشانی چومتے ہیں، سینے سے لگا تے ہیں۔ قرآنی لبوں سے بے شمار دعائیں دیتے ہیں، نرم ہتھیلیوں سے گال تھپتھپاتے ہیں، محبت کی تمازتوں سے ہمکنار کرتے ہیں، اور پوچھتے ہیں "بیٹا ! کیا حال اے تُہاڈا، ٹھیک ہیوے؟”
کیسے کہا جائے وہ”تھے”؟
اپنے طلباء سے اُن کا رشتہ اُستاذ والاکم، دوست والا زیادہ ہوتا تھا۔ وفات سے ڈیڑھ ماہ قبل، ملتان میں اُن سے آخری بار ملاقات ہوئی۔ صحت بھی اچھی تھی اور یاداشت بھی۔ دیکھتے ہی پہچان لیا، دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے پکڑ کر بولے: "یاری ہے یا مُک گئی اے”؟
میں لفظوں کا طالب علم ہوں ، کچھ لفظ مجھے آتے ہیں۔ لیکن تب یوں لگا جیسے مجھے کچھ نہیں آتا۔ دیر تک نگاہیں جھکی رہیں۔ جب چہرہ اوپر کیا تو چاروں آنکھیں بھیگ چکی تھیں۔ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہٗ وَ ارْحَمْہٗ
وقت کے دشتِ بے برگ میں واپسی کے لیے کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ منظروں کا نیا پَن، پُرانی رُتوں کے لیے موت ہے۔ گزرے دنوں کے سارے منظر سانجھے تھے، کوئی لمحہ رفاقت کی خوشبو سے خالی نہیں تھا۔
کبھی کبھی قسمت انگلی پکڑ کر انسان کو ایسی جگہ لا کھڑا کرتی ہے کہ لوح ِ حیات پہ اپنا نوشتہ خود لکھنا پڑتا ہے۔ وہیں سے اگلی منزلوں کے راستے نکلنے ہوتے ہیں اور وہیں رہ کر پہلے والے رشتے بھی نبھانے ہوتے ہیں۔ گذشتہ تعلق کا احساس سنبھال کر ، نئے راستے تلاشنا ، تَنی رَسّی پر چلنے سے کم نہیں۔
اُستاذِ محترم شیخ القرآن مولانا اللہ یار خاں رحمہ اللہ طبعا ً ہنس مکھ تھے لیکن انھیں باوقار لب ولہجے کا ہمیشہ احساس رہتا تھا۔ نپے تُلے الفاظ ، آواز کا زیرو بم، علمی نکات سے مزین جملے، دلیل کی سلاست سے آراستہ اسلوب، نسبتاً کم آہنگ اور حلیم الطبع۔
قرآنی علوم اور حدیث و تاریخ کے ساتھ ساتھ زندگی کے نشیب و فراز سے بھی خوب آگاہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے کتنے ہی تلامیذ و اصحاب دیکھتے ہی دیکھتے تعلیمی اُفق پر نمایاں ہوئے۔کیسے کیسے گوہر آبدار بنے۔ نیک نامی اور مقبولیت نے قدم چومے ۔ اللہ کی طاقت کہ وہ لوگ بھی مرتے ہیں جو لافانی ہوچکے ہوتے ہیں۔
آپ کتابوں کا موضوع ہیں اور میری بیاض چند سطور سے زیادہ نہیں۔ میرے کچھ اور بھی اساتذہ ہیں، گاہے گاہے ان کے متعلق بھی لکھتا رہوں گا۔