نامور مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک جو کہ اس وقت پاکستان کے دورے پر ہیں، اپنی مختلف باتوں اور تقاریر کی وجہ سے تنقید کی زد میں آگئے ہیں۔ انھوں نے گزشتہ روز کراچی میں ایک عوامی اجتماع کی سوال و جواب کی نشست میں پلوشہ شہزاد نامی پختون لڑکی سے بات کرتے ہوئے تلخ لہجے کا استعمال بھی کیا۔
اس سے پہلے انھوں نے اسلام آباد میں صحافیوں سے ملاقات کرتے ہوئے ایک خاتون صحافی کے سوال کے جواب میں کہا کہ بوقتِ ضرورت احتجاج کرنا اور انقلاب لانا درست عمل ہے۔ انھوں نے بنگلہ دیشی احتجاج اور انقلاب کی تعریف بھی کی اور ساتھ ہی مصر میں انقلاب کی ناکامی پر افسوس کا اطہار بھی کیا۔
بعد ازاں انھوں نے کراچی میں ایک تبلیغی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پی آئی اے کے سینئیر آفیسرز کو ڈسکاونٹ نہ دینے پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب وہ بھارت جاتے تھے تو انھیں پورا ڈسکاونٹ دیا جاتا تھا۔ لیکن پاکستان میں اسٹیٹ گیسٹ ہونے کے باوجود مجھے ففٹی پرسنٹ ڈسکاونٹ دیا گیا۔
پاکستانی سوشل میڈیا پر ڈاکٹر ذاکر نائیک کی یہ تقاریر زیر بحث ہیں۔ کچھ لوگ ڈاکٹر صاحب کی باتوں کو درست اور کچھ لوگ نامناسب قرار دے رہے ہیں۔ خاص طور پر پلوشہ شہزاد نامی پشتون لڑکی کے جواب میں ڈاکٹر صاحب کے لہجے کی تلخی کو بہت زیادہ محسوس کیا گیا ہے۔
اس سے پہلے انھوں نے اسلام آباد کے ایک یتیم خانے کی تقریب کے دوران اُس وقت اسٹیج چھوڑدیا تھا جب یتیم خانے میں پرورش پانے والی بچیاں ان سے انعام لینے کے لیے اسٹیج پر پہنچیں۔ ڈاکٹر صاحب کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ مجھے لگا لڑکیاں بالغ ہیں اس لیے میں اسٹیج سے نیچے اُترگیا۔