ریگستان کی سنہری ریت کے نیچے چھپی ہوئی ایک پراسرار تہذیب کی کہانی، جو کبھی عرب کی زندگی کی دھڑکن سمجھی جاتی تھی، اب اپنی تمام تر شانداریاں لیے ایک نئے انداز میں دنیا کے سامنے آ رہی ہے۔ صدیوں کی خاموشی اور وقت کی گرد میں گم یہ داستان اب جدید ٹیکنالوجی، تحقیق اور شاندار عکس بندی کے ساتھ سامنے آ رہی ہے، جسے نیشنل جیوگرافک اپنی نئی دستاویزی فلم "لوسٹ ٹریژرز آف عربیہ: نبطی سلطنت” میں پیش کر رہا ہے۔ اس فلم کا مقصد ناظرین کو صدیوں پر محیط ایک ایسے دلچسپ سفر پر لے جانا ہے، جہاں ماضی کے وہ راز چھپے ہیں جو عرب دنیا کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
یہ فلم نہ صرف ایک تاریخی کہانی ہے بلکہ یہ اس قوم کے شاندار عروج کی گواہی ہے جو اپنی ذہانت اور مہارت سے ریت کے بے رحم سمندر کو ایک تجارتی مرکز میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ نبطی قوم نے نہ صرف پانی کے ذخائر کو محفوظ رکھنے کا انوکھا نظام بنایا بلکہ انہوں نے صحرائی علاقوں میں ایسی جدید شہری منصوبہ بندی کی بنیاد رکھی جو آج کے ماہرین کو بھی حیران کر دیتی ہے۔ یہی وہ عوامل تھے جنہوں نے نبطیوں کو نہ صرف اپنی بقا یقینی بنانے میں مدد دی بلکہ انہیں دنیا کے عظیم ترین تجارتی راستوں پر غلبہ دلایا۔
یہ فلم 27 اگست کو نیشنل جیوگرافک چینل پر، 28 اگست کو نیشنل جیوگرافک ابوظہبی پر نشر کی جائے گی اور 29 اگست سے ڈزنی+ پر اسٹریمنگ کے لیے دستیاب ہوگی۔ خطے کے شائقین اس چینل کو اتصالات، دو اور ایس ٹی سی کے پلیٹ فارمز پر دیکھ سکتے ہیں، جبکہ بی اِن کے صارفین بھی اس سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔
اس شاہکار فلم میں ناظرین کو ایک دلکش اور محققانہ سفر پر لے جایا جائے گا جو اردن کے تاریخی شہر پترا سے شروع ہو کر سعودی عرب کے ہیگرہ تک پہنچے گا۔ یہ دونوں مقامات نبطی سلطنت کے عظیم ورثے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ فلم میں جدید آثارِ قدیمہ کی تحقیقات اور نبطی تہذیب کے بارے میں تازہ ترین انکشافات شامل کیے گئے ہیں، جو اس پراسرار قوم کے طرزِ زندگی، ان کے تجارتی نظام اور ثقافتی روایات پر نئی روشنی ڈالتے ہیں۔
یہ بھی سامنے آیا ہے کہ نبطیوں کے عروج کی ایک بڑی وجہ اُن کا پانی کو ذخیرہ کرنے اور کنٹرول کرنے کا شاندار نظام تھا، جو اُن کے شہروں کو ریگستان میں بھی سرسبز رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ فلم میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ نبطی معاشرے میں خواتین نے بھی اہم سماجی اور ثقافتی کردار ادا کیا، جو اس تہذیب کی ترقی کی علامت تھا۔
فلم کی سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ ماہرین نے ہیگرہ سے ملنے والی انسانی باقیات کی بنیاد پر ایک نبطی عورت کے چہرے کی پہلی سائنسی تشکیل مکمل کر لی ہے۔ یہ کارنامہ ناظرین کو دو ہزار سال پرانی ایک شخصیت سے براہِ راست روشناس کراتا ہے اور انہیں اس تہذیب کے قریب تر لے آتا ہے۔
یہ فلم صرف شاندار مناظر اور جدید ٹیکنالوجی کا امتزاج نہیں بلکہ اس میں مقامی ماہرین کی گہری بصیرت بھی شامل ہے، جو اس تحقیق کو مزید مستند اور معنی خیز بناتی ہے۔ انگریزی زبان میں فلم کی روایت کاری آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد اداکارہ میگی جیلنہال نے کی ہے، جو اپنے منفرد انداز میں ناظرین کو ماضی کی گہرائیوں میں لے جاتی ہیں۔ عربی زبان میں یہ ذمہ داری سعودی صحافی و ٹی وی اینکر ویم الدخیل نے سنبھالی ہے۔ اس فلم کے ہدایت کار ڈِرک ورہیے اور انتی کالفاٹ ہیں، جبکہ اس کا انتظام اور پروڈکشن رائل کمیشن برائے العُلا کے تعاون سے کیا گیا ہے۔
یہ شاہکار فلم دراصل نیشنل جیوگرافک کی مشہور سیریز "لوسٹ ٹریژرز آف عربیہ” کی دوسری قسط ہے، جبکہ اس سیریز کی پہلی قسط "قدیم شہر دَدان” پہلے ہی ڈزنی+ پر دستیاب ہے اور ناظرین سے زبردست پذیرائی حاصل کر چکی ہے۔
