سوئیٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں قائم مشہور بینک یونین بانکیئر پریفے نے حال ہی میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں اپنا پہلا دفتر کھول کر ایک بڑا قدم اٹھایا ہے۔ یہ پیش رفت نہ صرف اس کے طویل المدتی منصوبوں کو ظاہر کرتی ہے بلکہ سعودی عرب میں تیزی سے بدلتی ہوئی مالیاتی ضروریات کی طرف بھی ایک اشارہ ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں مملکت میں ویژن 2030 کے تحت اقتصادی و مالیاتی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں لائی گئی ہیں، اور انہی تبدیلیوں نے عالمی سطح کے ماہرین اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کے اداروں کے لیے نئے دروازے کھولے ہیں۔ ایسے ماحول میں کسی عالمی نجی بینک کا آنا اس بات کی علامت ہے کہ سعودی عرب کا مالیاتی شعبہ اب نئے معیار کا تقاضا کر رہا ہے۔
اس نئے دفتر کے قیام کے ذریعے یہ فیملی اونڈڈ بینک سعودی عرب کے بازار کے قریب رہ کر مقامی سرمایہ کاروں، بینکوں، کاروباری خاندانوں اور مستقبل کے وارثوں کے ساتھ براہِ راست تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے۔ بینک کے اعلیٰ حکام کے مطابق ریاض سے آپریشن چلانے کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ سعودی کلائنٹس کی ضروریات، ان کے خدشات اور ترجیحات کو بہت قریب سے سمجھ سکیں گے اور ایسے حل پیش کریں گے جو ملک کے تیزی سے تبدیل ہوتے معاشی ماحول سے مطابقت رکھتے ہوں۔
عرب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بینک کے سینئر منیجنگ ڈائریکٹر محمد عبداللطیف نے بتایا کہ مملکت میں معاشی اصلاحات کی رفتار نے مالیاتی منظرنامے کو یکسر بدل دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملکی فنانس کا ڈھانچہ اب پہلے سے کہیں زیادہ متنوع اور جدید ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں خصوصی مشاورتی خدمات کی ضرورت بڑھی ہے۔ ان کے مطابق، سعودی مارکیٹ کو ایسے ماہرین کی ضرورت ہے جو عالمی مالیاتی رجحانات، بین الاقوامی سرمایہ کاری کے چینلز اور جدید پورٹ فولیو مینجمنٹ کی تکنیکوں کو سمجھتے ہوں، اور یہی خلا پُر کرنے کے لیے یو بی پی نے یہاں قدم رکھا ہے۔
عبداللطیف نے اس بات پر بھی زور دیا کہ بینک سعودی مارکیٹ میں آ کر کسی مقامی ادارے سے مقابلہ کرنے نہیں آیا بلکہ ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ان کے مطابق، مقامی بینکوں اور مالیاتی اداروں کا اپنا مضبوط نیٹ ورک موجود ہے اور یو بی پی کی آمد کا مقصد ان کی صلاحیتوں میں اضافہ اور انہیں بین الاقوامی تجربے سے فائدہ پہنچانا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ سعودی بینکوں اور مالیاتی اداروں کے شراکت دار بن کر کام کرنا چاہتے ہیں تاکہ مجموعی مالیاتی نظام اور مضبوط ہو سکے۔
مستقبل میں سرمایہ کاری کے رجحانات پر بات کرتے ہوئے عبداللطیف نے بتایا کہ اب سعودی سرمایہ کار زیادہ وسیع مواقع اور متنوع مارکیٹس تک رسائی چاہتے ہیں۔ ماضی میں اندرونِ ملک سرمایہ کاری پر زیادہ زور تھا، مگر اب مقامی سرمایہ کار اپنی رقوم کو عالمی مارکیٹس میں لے جانے میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق، بین الاقوامی ایکویٹیز، بانڈز، متبادل سرمایہ کاریاں، اور نئے مالیاتی حل سعودی کلائنٹس کی ترجیحات کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں یو بی پی سب سے زیادہ مدد کر سکتا ہے کیونکہ اس کا عالمی دائرہ کار اور ہر طرح کے اثاثوں میں تجربہ سعودی کلائنٹس کو ایسے مواقع دے سکتا ہے جو انہیں پہلے کم دستیاب تھے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ سعودی عرب کی معاشی عالمی سطح پر ادغام کی کوششیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور یہ بین الاقوامی اداروں کے لیے غیر معمولی مواقع پیدا کر رہی ہیں۔ عبداللطیف کے مطابق، سعودی مارکیٹ میں داخل ہونا نہ صرف کاروباری فیصلہ ہے بلکہ ایک ایسے تاریخی سفر کا حصہ بننا ہے جو ویژن 2030 کے تحت ملک کو مکمل طور پر نئی معاشی بلندیوں تک لے جانے والا ہے۔ ان کے مطابق، بین الاقوامی مالیاتی مہارت سعودی عرب کے لیے وہ سپورٹ فراہم کرے گی جو ملک کے معاشی عالمی کردار کو مزید مضبوط بنائے گی۔
بینک کے سعودی عرب میں مشاورتی امور کے سربراہ مشعل الحواس کے مطابق، سعودی کلائنٹس کے لیے حل بناتے وقت سب سے اہم چیز یہ ہے کہ ہر موقع اور سرمایہ کاری کو مقامی ضوابط اور کلائنٹ کی ترجیحات کے مطابق ڈھالا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ عالمی سطح پر سرمایہ کاری کے ہر ملک کے اپنے قوانین، خطرات اور تقاضے ہوتے ہیں اور ان سب کو فلٹر کرنے کے بعد ہی کسی سعودی کلائنٹ کے لیے کوئی مالیاتی تجویز پیش کی جاتی ہے۔ ان کے مطابق، مقامی تاریخ، کاروباری ماحول، خاندانی کاروباروں کی ساخت، اور سرمایہ کاری کے منفرد طرزِ فکر کو سامنے رکھتے ہوئے بینک ایسی حکمتِ عملی تخلیق کرتا ہے جو کلائنٹس کے مقاصد سے مکمل طور پر میل کھاتی ہیں۔
بینک کی عالمی ویلتھ مینجمنٹ سربراہ ناڈیج لیسور پینے کے مطابق یو بی پی کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ بینک تقریباً ہر بڑے مالیاتی شعبے میں تجربہ رکھتا ہے، چاہے وہ ایکویٹی مارکیٹس ہوں، فکسڈ انکم، متبادل سرمایہ کاریاں، یا خصوصی سرمایہ کاری کے حل۔ ان کے مطابق، سعودی کلائنٹس کے پاس ایک ایسا ادارہ آ چکا ہے جو انہیں عالمی سطح پر متنوع مالیاتی مواقع سے جوڑ سکتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ریاض کا دفتر بینک کے طویل المدتی منصوبے کا اہم حصہ ہے۔
ریاض میں موجودگی کے ذریعے بینک کا مقصد صرف سرمایہ کاری کی سہولت فراہم کرنا نہیں بلکہ مقامی کلائنٹس کے ساتھ ایسا رشتہ قائم کرنا ہے جو طویل عرصے تک قائم رہے۔ بینک کے مطابق، سعودی عرب میں خاندانی کاروبار بہت مضبوط ہیں اور آنے والی نسلیں اپنے ورثے کو جدید عالمی پلیٹ فارمز سے جوڑنا چاہتی ہیں۔ ایسے میں عالمی ماہرین کا کردار پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔
یو بی پی کی ریاض میں آمد اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ سعودی عرب کا مالیاتی شعبہ اب عالمی معیار کی معاونت اور جدید سرمایہ کاری کے ماڈلز کا تقاضا کر رہا ہے۔ ملکی معاشی منظرنامہ ایک بڑے انتقال کے دور سے گزر رہا ہے، اور ایسے وقت میں کوئی بھی بین الاقوامی بینک جو عالمی مہارت، جدید فنانشل پراڈکٹس، اور مضبوط مشاورتی نظام رکھتا ہو، سعودی مارکیٹ کے لیے نہایت قیمتی ثابت ہو سکتا ہے۔ یو بی پی کا فیصلہ اس بدلتی ہوئی حقیقت کی ایک واضح مثال ہے کہ مملکت اب نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سرمایہ کاری کے نقشے پر ایک نمایاں مقام حاصل کر رہی ہے۔
