سعودی عرب نے اپنی بندرگاہی اور خوراک سے متعلق سپلائی چین کو مضبوط بنانے کے لیے ایک بڑا قدم اٹھایا ہے، جس کے تحت کنگ عبدالعزیز پورٹ کے اندر جدید فوڈ سپلائی اور لاجسٹکس انفراسٹرکچر قائم کیا جا رہا ہے۔ یہ منصوبہ دراصل ایک دو سو ملین سعودی ریال مالیت کے معاہدے کا نتیجہ ہے جو سعودی پورٹس اتھارٹی موانی کے سربراہ سلیمان بن خالد المزروعہ اور آراسکو (Arasco) کے سی ای او زیاد الشیخ کے درمیان طے پایا۔
اس شراکت داری کو سعودی حکومت کی نیشنل ٹرانسپورٹ اینڈ لاجسٹکس اسٹریٹجی کا اہم جزو قرار دیا جا رہا ہے، کیونکہ اس سے مملکت کی کوششوں کو مزید تقویت ملے گی کہ وہ براعظم ایشیا، یورپ اور افریقہ کے درمیان ایک مرکزی لاجسٹک پل کا کردار ادا کرے۔
اس معاہدے کی اہمیت اس وجہ سے بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ سعودی عرب طویل عرصے سے اپنی بندرگاہوں کو عالمی معیار کے مطابق ڈھالنے پر کام کر رہا ہے۔ موانی نے اپنے بیان میں یہ بات واضح کی کہ یہ کنٹریکٹ صرف انفراسٹرکچر کی تعمیر تک محدود نہیں بلکہ قومی سپلائی چینز کو جدید، تیز اور مضبوط بنانے کی بڑی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ کنگ عبدالعزیز پورٹ دمام پہلے ہی خطے کی اہم ترین سمندری گزرگاہوں میں شمار ہوتی ہے، لیکن نئے منصوبے سے اس کی کارکردگی، آپریشنز اور گنجائش تین گنا تک بہتر ہو سکے گی۔
منصوبے کی سب سے نمایاں خصوصیات میں سے ایک 40 ہزار مربع میٹر پر مشتمل وہ جدید سہولت ہے جو پورٹ کے اندر قائم کی جائے گی۔ یہ جگہ صرف گوداموں تک محدود نہیں ہوگی بلکہ اس میں ایسی جدید ٹیکنالوجی شامل کی جائے گی جو خوراک سے متعلق اشیا کی ہینڈلنگ، پروسیسنگ اور ترسیل کو نہایت موثر بنائے گی۔ اس سسٹم کے تحت آنے والی اشیا کو تیزی سے اتارا جائے گا، ترتیب دیا جائے گا اور پھر انہیں ملک کے مختلف حصوں تک پہنچانے کے لیے مربوط ٹرانسپورٹ نیٹ ورک سے جوڑا جائے گا۔
اس منصوبے کا سب سے اہم فنی جزو گرین سٹوریج سائلوز ہیں جنہیں خاص طور پر اناج کی بڑی مقدار محفوظ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا جا رہا ہے۔ یہ سائلوز ایک لاکھ میٹرک ٹن تک اناج محفوظ کر سکیں گے، جس سے سعودی عرب کے اسٹریٹجک فوڈ ریزرو کو غیر معمولی تقویت ملے گی۔ یہ اضافہ نہ صرف ہنگامی صورتحال میں اہم کردار ادا کرے گا بلکہ مستقبل میں بڑھتی ہوئی آبادی اور غذائی ضروریات کو بھی بہتر انداز میں پورا کیا جا سکے گا۔
منصوبے میں صرف ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بڑھانے پر ہی توجہ نہیں دی گئی بلکہ جدید مشینری استعمال کرنے کی بھی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اس میں خصوصی شپ ان لوڈنگ مشینیں، تیز رفتار کنویئر بیلٹ سسٹمز، اور گاڑیوں پر سامان لوڈ کرنے کے لیے مخصوص اسٹیٹ آف دی آرٹ ٹیکنالوجی شامل ہے۔ یہ تمام آلات پورٹ کے برتھ 37 اور 39 کے درمیان ایک ایسا مربوط نظام قائم کریں گے جو سامان کے بہاؤ کو مسلسل اور بغیر رکاوٹ برقرار رکھے گا۔ اس سے نہ صرف جہازوں کے ٹرن اراؤنڈ ٹائم میں واضح کمی آئے گی بلکہ پورے لاجسٹکس سسٹم کی رفتار میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔
یہ منصوبہ براہِ راست معاشی ترقی کا ذریعہ بھی بنے گا۔ اندازوں کے مطابق اس کے ذریعے تین ہزار سے زائد براہِ راست اور بالواسطہ ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ اس سے نہ صرف مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع بڑھیں گے بلکہ مستقبل میں بندرگاہی آپریشنز، مکینیکل سسٹمز، فوڈ ہینڈلنگ، اور لاجسٹکس مینجمنٹ جیسے شعبوں میں مہارت رکھنے والے افراد کی طلب میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس طرح یہ منصوبہ مقامی ہنرمندی، تربیت، اور ٹیکنیکل صلاحیتوں کو بھی نئی جہت دے گا۔
ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ یہ نیا مرکز پورے خطے کے لیے خوراک اور ضروری اشیاء کے بہاؤ کو مزید مستحکم کرے گا۔ چونکہ سعودی عرب خلیجی ریاستوں کے درمیان تجارتی سرگرمیوں کا بنیادی مرکز ہے، اس لیے یہاں قائم ہونے والا جدید فوڈ لاجسٹکس ہب نہ صرف مقامی بلکہ علاقائی سطح پر بھی غذائی سیکیورٹی اور سپلائی چین کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں غذائی عدم استحکام، لاجسٹکس لاگت میں اضافہ، اور بین الاقوامی سطح پر غیر یقینی حالات بڑھ رہے ہیں، یہ منصوبہ سعودی عرب کو خودکفالت اور مضبوط پوزیشن کی طرف لے جانے والا قدم ثابت ہوگا۔
دمام میں قائم کنگ عبدالعزیز پورٹ پہلے ہی 43 فعال برتھ، اور سالانہ 105 ملین ٹن سے زائد کارگو ہینڈلنگ کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسے مشرقی سعودی عرب کا دل کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ چونکہ یہ بندرگاہ عالمی تجارت کا اہم دروازہ ہے، اس لیے یہاں جدید انفراسٹرکچر کی تعمیر نہ صرف سعودی عرب بلکہ بین الاقوامی تجارت کے لیے بھی فائدہ مند ہوگی۔ مزید یہ کہ اس منصوبے سے آنے والے برسوں میں عالمی لاجسٹکس کمپنیوں کو بھی یہاں سرمایہ کاری کی ترغیب ملے گی، جو مملکت کو خطے کے سب سے بڑے لاجسٹکس سنٹر کے طور پر مزید مضبوط کرے گا۔
یہ منصوبہ سعودی ویژن 2030 کی اس سوچ کے عین مطابق ہے جس میں جدید انفراسٹرکچر، مضبوط ادارہ جاتی تعاون اور نجی شعبے کی شمولیت کو ملک کی ترقی کے بنیادی ستون قرار دیا گیا ہے۔ آراسکو اور موانی کی شراکت اس بات کا ثبوت ہے کہ سعودی عرب نجی شعبے کو قومی ترقی کے بڑے منصوبوں میں شراکت دار بنانے کی پالیسی پر پوری سنجیدگی سے عمل کر رہا ہے۔
یہ نیا انفراسٹرکچر نہ صرف بندرگاہ کی کارکردگی کو نئی سطح پر لے جائے گا بلکہ سعودی عرب کی طویل المدتی سفارتی، معاشی اور تجارتی حکمتِ عملی کو بھی تقویت دے گا۔ اس سے ایک جانب خوراک کی فراہمی کے نظام کو محفوظ بنایا جائے گا، تو دوسری طرف پورے ملک میں معاشی سرگرمیوں کو رفتار ملے گی۔ یہی وجہ ہے کہ تجزیہ کار اسے خلیج کے اندر لاجسٹکس کی دنیا میں ایک گیم چینجر قرار دے رہے ہیں—ایک ایسا قدم جو سعودی عرب کو مستقبل کی معاشی دوڑ میں نہ صرف شامل رکھے گا بلکہ اسے آگے بھی لے جائے گا۔
