پاکستان میں کنو کے نئے برآمدی سیزن کا آغاز ایسے وقت میں ہوا ہے جب ملک کی باغبانی صنعت کئی ساختی چیلنجوں کے درمیان کھڑی ہے، مگر اس کے باوجود برآمدکنندگان نے اس سال بلند توقعات رکھی ہیں۔ نئی مہم کے لیے ایک بڑی ہدف سازی کی گئی ہے، جس کے تحت اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ موجودہ سیزن میں تقریباً تین لاکھ ٹن کنو بیرونِ ملک بھیجا جائے گا، اور اس سے ایک سو دس ملین ڈالر تک زرمبادلہ حاصل ہو سکتا ہے۔ چند دنوں کے اندر اندر ہزاروں ٹن کنو مشرقِ وسطیٰ، سری لنکا اور فلپائن سمیت کئی منڈیوں تک پہنچایا جا چکا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ عالمی مارکیٹ میں پاکستانی کنو کی مانگ بدستور موجود ہے۔
گزشتہ برس ملک تقریباً ڈھائی لاکھ ٹن کنو ایکسپورٹ کرنے میں کامیاب ہوا تھا، جس کے بدلے پچانوے ملین ڈالر حاصل ہوئے تھے۔ اس بار مجموعی پیداوار میں نمایاں اضافہ سامنے آیا ہے، کیونکہ تخمینوں کے مطابق رواں سیزن میں کنو کی کل پیداوار ستائیس لاکھ ٹن تک پہنچ رہی ہے، جو پچھلے سال کے سترہ لاکھ ٹن کے مقابلے میں بہت بڑی چھلانگ ہے۔ لیکن برآمدات میں اس اضافے کا عکس پوری طرح نظر نہیں آ رہا۔ پانچ برس پہلے پاکستان کنو کی برآمدات میں 550,000 ٹن سے بھی آگے تھا، جبکہ اب اعداد و شمار تقریباً نصف رہ گئے ہیں۔ یہ تنزلی اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ مقدار بڑھنے کے باوجود برآمدی گنجائش کمزور پڑتی جا رہی ہے۔
ماہرین کے مطابق اس مسلسل زوال کی ایک بنیادی وجہ تحقیق اور جدید زرعی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری نہ کرنا ہے۔ باغبانی کے شعبے کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کئی دہائیوں سے کنو اور دیگر ترشاوے پھلوں کی نئی اقسام متعارف نہیں کرائی گئیں، جس کی وجہ سے ملک عالمی مقابلے میں پیچھے ہوتا جا رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے اپنی زرعی صنعت کو بدلتے موسم، بڑھتے درجہ حرارت اور پانی کی کمی کے مطابق ڈھال لیا ہے، جبکہ پاکستان میں اب تک پرانی اقسام پر انحصار کیا جا رہا ہے جو بیماریوں اور موسمی جھٹکوں کے مقابلے میں کمزور پڑ رہی ہیں۔
زراعتی تنظیموں کی سفارش ہے کہ ملک کو فوری طور پر نئی، بیماریوں سے مزاحم اور کم پانی میں بڑھنے والی اقسام کی کاشت شروع کرنی چاہیے۔ دنیا کے کئی بڑے پھل پیدا کرنے والے ممالک—مثلاً مصر، امریکہ، چین اور مراکش—ایسی جدید اقسام استعمال کر رہے ہیں جن کی عالمی مانگ بھی بہت زیادہ ہے۔ ان اقسام میں لیموں، گریپ فروٹ، سنترا اور میندارین شامل ہیں، جو نہ صرف منافع بخش ہیں بلکہ پانی کے بحران کے زمانے میں بہترین انتخاب بھی سمجھے جاتے ہیں۔
پاکستان کے ترشاوے پھلوں کا بحران صرف پنجاب تک محدود نہیں، بلکہ خیبر پختونخوا کے علاقوں دیر بالا اور دیر زیریں میں صورت حال کہیں زیادہ سنگین ہو چکی ہے۔ یہ علاقے ماضی میں اپنی خوشبودار اور شہد جیسے ذائقے والی قدرتی سنتری کی وجہ سے مشہور تھے، جسے مقامی لوگ "قدرت کی مٹھاس” کہا کرتے تھے۔ لیکن بڑھتی ہوئی آبادی، زمین کی قیمتوں میں اضافہ اور ماحولیاتی تبدیلی کے دباؤ نے باغات کو تیزی سے ختم کر دیا ہے۔ اب ان علاقوں میں صرف چند سو ایکڑ زمین ہی سنتری کے باغات کے لیے باقی رہ گئی ہے، جبکہ بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے اکثر تاجروں کو پنجاب سے فروٹ منگوا کر اسے دیر کے نام سے بیچا جاتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر سائنسی بنیادوں پر ان باغات کو دوبارہ آباد کیا جائے تو یہ علاقے پاکستان کے بہترین زرعی خطوں میں دوبارہ شمار ہو سکتے ہیں۔
ترشاوے پھلوں کی برآمدات کا ایک اور بڑا مسئلہ لاجسٹکس ہے۔ افغانستان کے ساتھ تجارت بند ہونے سے وسطی ایشیا اور روس کی منڈیاں تقریباً بند ہو چکی ہیں، جبکہ ان ممالک نے ماضی میں پاکستان کے کنو کی بڑی مقدار خریدی تھی۔ اب برآمدکنندگان کو اپنی مصنوعات ایران کے راستے طویل، مہنگے اور مشکل راستوں سے بھیجنا پڑتا ہے۔ موجودہ سیزن کے آغاز پر ہی ایران کے راستے مال برداری کی لاگت دو گنا بڑھ گئی ہے، جس سے کنو کی برآمد مزید غیر مسابقتی ہو رہی ہے۔
ایکسپورٹرز کا کہنا ہے کہ اگر حکومت ایک مربوط قومی حکمتِ عملی بنائے، تحقیق میں سرمایہ کاری کرے، نئے باغات لگانے میں سہولت دے اور زرعی انفراسٹرکچر کو بہتر بنائے تو پاکستان نہ صرف اپنی گرتی ہوئی برآمدات کو سنبھال سکتا ہے بلکہ آنے والے چند برسوں میں عالمی سطح پر نمایاں مقام بھی حاصل کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جدید آبپاشی نظام—جیسے ڈرِپ اور سپرنکلر—کو عام کرنا بھی ضروری ہے، کیونکہ پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہوتے جا رہے ہیں اور روایتی طریقۂ آبپاشی اب ملک کے حالات کے مطابق نہیں رہا۔
ماہرین کے مطابق اگر حکومت مختصر، درمیانے اور طویل مدتی منصوبوں پر عمل درآمد یقینی بنا دے تو پاکستان کی ترشاوے پھلوں کی برآمدات آئندہ پانچ برسوں میں چار سو ملین ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ زرعی شعبے کی بنیادوں کو مضبوط کیا جائے، کسانوں کو جدید تکنیک سے آگاہ کیا جائے اور عالمی منڈیوں میں جگہ بنانے کے لیے مسابقتی پالیسیاں ترتیب دی جائیں۔
