توانائی کے شدید بحران سے دوچار پاکستان کے بجلی کے شعبے میں گردشی قرضہ ایک بار پھر بے قابو ہونے کے سنگین خطرے سے دوچار ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر موجودہ صورتحال میں کوئی مؤثر اصلاحاتی منصوبہ فوری طور پر نافذ نہ کیا گیا تو رواں مالی سال کے اختتام تک گردشی قرضے میں 734 ارب روپے کا بھاری اضافہ متوقع ہے، جو پہلے سے کمزور معیشت پر مزید دباؤ بڑھا سکتا ہے۔
دوسری جانب حکومت نے آئی ایم ایف کے میمورنڈم آف فنانشل اینڈ اکنامک پالیسیز (MEFP) کے تحت طے شدہ اصلاحاتی اقدامات پر مرحلہ وار عملدرآمد کے ذریعے اس اضافی بہاؤ کو "صفر” تک لانے کا ہدف مقرر کردیا ہے۔ متعلقہ حکام کے مطابق اصلاحات میں تاخیر کی صورت میں جون 2026 تک گردشی قرضہ موجودہ 1.615 ٹریلین روپے سے بڑھ کر 2.35 ٹریلین روپے تک پہنچ جانے کا خدشہ ہے، جو ملکی اقتصادی ڈھانچے کو شدید خطرات سے دوچار کرسکتا ہے۔
وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے مالی سال 2025-26 کے لیے گردشی قرضہ مینجمنٹ پلان کی منظوری دے دی ہے۔ اس منصوبے کے تحت ٹیرف ری بیسنگ، تقسیم کار کمپنیوں کے تکنیکی و انتظامی نقصانات میں کمی، اور ریکوریز میں بہتری جیسے اہم اقدامات شامل ہیں۔ حکومت کا ہدف ہے کہ رواں مالی سال گردشی قرضے کے بہاؤ کو محدود کرتے ہوئے تقریباً 522 ارب روپے تک رکھا جائے۔
مزید براں، منصوبے میں سرکاری پاور پلانٹس اور نجی بجلی گھروں (IPPs) کو 400 ارب روپے کے قریب ادائیگیاں شامل ہیں، جبکہ 120 ارب روپے کے پرنسپل کی واپسی بھی مجوزہ اقدامات کا حصہ ہے، تاکہ قرضے کے مجموعی حجم کو "نیوٹرل” سطح پر برقرار رکھا جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق جولائی 2025 کے اختتام پر گردشی قرضہ 1.614 ٹریلین روپے ریکارڈ کیا گیا تھا، جو بجلی کے شعبے میں موجود دیرینہ مسائل، ناقص انتظامی ڈھانچے اور ریونیو خسارے کی واضح عکاسی کرتا ہے۔
