اسرائیل نے مصر کو قدرتی گیس کی فراہمی کے ایک تاریخی اور بڑے معاہدے کی منظوری دے دی ہے، جسے اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ملک کی تاریخ کا اب تک کا سب سے بڑا گیس معاہدہ قرار دیا ہے۔ بدھ کے روز ایک ٹیلیویژن بیان میں نیتن یاہو نے کہا کہ اس معاہدے کی مجموعی مالیت 112 بلین شیکل (تقریباً 34.67 بلین ڈالر) ہے، جس کے تحت اسرائیل کے بڑے قدرتی گیس ذخیرے لیویاثن فیلڈ سے مصر کو طویل مدت تک گیس فراہم کی جائے گی۔
یہ معاہدہ رواں سال اگست میں طے پایا تھا، تاہم بعض تکنیکی اور تصفیہ طلب معاملات کے باعث اس کی حتمی منظوری میں تاخیر ہو رہی تھی۔ نیتن یاہو کے مطابق اب ان رکاوٹوں کو دور کر دیا گیا ہے اور معاہدہ خطے میں توانائی کے استحکام اور معاشی تعاون کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ امریکی توانائی کمپنی شیورون اور اسرائیلی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کیا گیا ہے، جس کے ذریعے مصر کو آئندہ برسوں میں 35 بلین ڈالر تک کی قدرتی گیس فراہم کی جائے گی۔ نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ یہ صرف ایک تجارتی معاہدہ نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں اقتصادی تعاون اور علاقائی استحکام کی جانب ایک بڑا قدم ہے۔
دوسری جانب مصر اس وقت شدید توانائی بحران سے گزر رہا ہے۔ ملکی گیس پیداوار میں 2022 سے نمایاں کمی کے باعث مصر کو مائع قدرتی گیس (LNG) کی درآمد پر اربوں ڈالر خرچ کرنا پڑے، جس نے اس کی معیشت پر دباؤ بڑھا دیا۔ اپنی داخلی ضروریات پوری نہ ہونے کے سبب مصر کو علاقائی توانائی مرکز بننے کے خواب بھی ترک کرنا پڑے۔
ان حالات میں اسرائیل کے ساتھ یہ معاہدہ مصر کے لیے ایک بڑی ریلیف ثابت ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اسرائیلی گیس کی فراہمی سے مصر نہ صرف اپنے توانائی بحران پر قابو پا سکے گا بلکہ بجلی کی پیداوار، صنعتی سرگرمیوں اور عوامی ضروریات کو بھی بہتر انداز میں پورا کر سکے گا۔
علاقائی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ گیس معاہدہ مشرقِ وسطیٰ میں توانائی، سیاست اور سفارت کاری کے توازن کو نئی شکل دے سکتا ہے، جہاں توانائی کے وسائل اب دوطرفہ تعلقات اور علاقائی تعاون کا اہم ذریعہ بنتے جا رہے ہیں۔
