گزشتہ ایک ہفتے کے دوران تین بین الاقوامی ہوائی جہاز حادثات کا شکار ہوئے ہیں۔ جن میں سے ایک آذربائیجان ائیر لائن اور دوسری جیجو ائیرلائن جنوبی کوریا کے جہاز مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہیں۔ لگ بھگ 280 مسافر بھی ان دونوں طیاروں میں ہلاک ہوگئے ہیں۔ جبکہ ایک کینیڈین ائیر لائن تباہ ہوتے ہوتے بچی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک دم سے جہاز گرنے کے واقعات میں اضافہ کیوں ہوگیا ہے؟
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ ہوائی جہازوں میں تمام احتیاطی مشینری انسٹال اور ماہر عملہ تعینات ہوتا ہے اور یہ کہ ہوائی جہاز بہترین سفری سہولیات اور حفاظتی اقدامات کی تسلی کے بعد ہی اڑائے جاتے ہیں۔ تاہم حالیہ دنوں میں حادثات کا زیادہ ہونا تشویشناک معاملہ ہے۔
آذر بائیجان سے معافی؟
آذربائیجان ائیر لائن کے گرنے کی ایک وجہ روسی مداخلت بھی بتلائی جاتی ہے اور روسی صدر سے منسوب ایک غیر رسمی معافی نامہ بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے۔ تاہم ابھی تک اس معافی نامے کی کوئی مصدقہ حقیقت سامنے نہیں آئی ہے۔ نہ روس کی طرف سے اور نہ ہی آذربائیجان کی طرف سے
تاہم اس حقیقت کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ اڑتے ہوئے جہازوں کے گرنے کی ریشو اور تناسب میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ماہرین کے ہاں اس کی بہت سے وجوہات ہوسکتی ہیں۔
ہوائی جہاز گرنے کی تین بنیادی وجوہات :
جہاز کے اندر اچانک فنی خرابی، اڑتے جہاز کے ساتھ باہر سے کوئی مداخلت، یا پھر پائلٹس کی طرف سے انسانی غلطی بھی جہاز کے گرنے کی وجہ اور سبب بن سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق جدید جہازوں میں فنی خرابی کی وجہ سے پیش آنے والے حادثات کے امکانات کو کم سے کم کیا گیا ہے۔ جہازوں میں متبادل انجن کسی بھی فنی خرابی کی صورت میں بہ حفاظت جہاز کو کسی بھی محفوظ جگہ پہنچا سکتے ہیں۔
قدرتی عوامل میں موسم کی خرابی اولین شے ہے جس کی وجہ سے حادثات پیش آتے ہیں۔ پاکستان میں پیش آنے والے حادثات میں بھوجہ ائیر لائن کی تباہی کی وجہ موسم کی خرابی بتایا جاتا ہے جبکہ اس بد قسمت جہاز کو ایسے خراب موسم میں اترنے سے روک کر اس حادثے سے بچا جا سکتا تھا۔
خرابی چاہے فنی ہو یا موسم کی، انسانی مہارت سے حادثات سے بچا جا سکتا ہے۔
جہازوں کی دیکھ بال، مرمت، صفائی اور اڑان بھرنے سے پہلے معائنہ سب انسانی مشاہدے کے متقاضی ہیں۔ بہترین انسانی مہارت کی ایک ائیر لائن کے ادارے کو انتظامی سطح پر چلانے سے لے کر جہازوں کو اڑانے اور مسافروں کے سفر کو آرام دہ بنانے تک ضرورت ہوتی ہے۔
دنیا کی بڑی ائیر لائنز کیا کرتی ہیں؟
دنیا کی بہترین ائیرلائنز اپنے مسافروں کی زندگیوں پر کمپرومائز بالکل نہیں کرتیں۔ قطر ائیر ویز، امارات ائیر لائن، سعودی ائیر لائن، امریکن ائیر لائن، برطانوی ائیر لائن، ٹرکش ائیرلائن، وغیرہ تاہم انسانی بنیاد پر حادثہ کبھی بھی اور کہیں بھی ہوسکتا ہے۔ حادثات کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
البتہ حادثات کو روکنے کی پوری کوشش ضرور کرنی چاہیے۔ پائلٹس اور عملے کا جہاز کے فنکشنز اور سسٹم کے متعلق مکمل تعلیم یافتہ ہونا، تجربہ کار ہونا، اپنے کام میں مہارت رکھنا، نہایت ضروری ہے۔
بعض لوگ جہازوں کے گرنے کے واقعات کو جنات اور جادو ٹونے سے ملا دیتے ہیں۔ توہمات میں تو ایسی چیزوں پر یقین کیا جا سکتا ہے، حقیقت سے ایسی چیزوں کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
عموماً دیکھا گیا ہے کہ اچھی ائیرلائنز کے طیاروں کے ساتھ حادثات بہت کم پیش آتے ہیں۔
کہیں اگر کوئی تکنیکی خرابی ہو بھی جائے تو پائلٹس اپنی مہارت سے جہازوں کو بہ حفاظت قریبی ائیرپورٹس پر اتار لیتے ہیں۔ جبکہ جہاز کی حفاظت کے لیے تمام ضروری امور بھی اُڑان بھرنے سے پہلے اچھے سے دیکھ لیے جاتے ہیں۔
کیا آسمانی بجلی سے جہاز گر سکتا ہے؟
ایک تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ جہاز سے آسمانی بجلی ٹکرا جاتی ہے جس سے جہاز گرجاتا ہے۔ واضح رہے کہ ہوائی جہازوں کو ایک ایسی خاص مہارت کے ساتھ ڈیزائن کیا جاتا ہے کہ آسمانی بجلی ان پر اثر نہیں کرتی۔ آسمانی بجلی ہر ہوائی جہاز سے سال میں کم سے کم ایک مرتبہ ضرور ٹکراتی ہے لیکن اسے نقصان نہیں پہنچا پاتی۔
کیا ہوائی جہاز میں محفوظ سیٹیں بھی ہوتی ہیں؟
کچھ لوگ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ کیا ہوائی جہاز میں کوئی محفوظ سیٹیں بھی ہوتی ہیں جہاں حادثات کی صورت میں مسافروں کے محفوظ رہنے کے امکانات زیادہ ہوں؟ جہاز کی کوئی بھی سیٹ محفوظ نہیں ہوتی، فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ جہاز کے آخری حصے میں موجود درمیانی سیٹوں پر بیٹھے مسافروں کے حادثے کا شکار ہونے کی شرح دیگر سیٹوں پر بیٹھے مسافروں کے مقابلے میں کم رہی ہے۔
آج صبح جنوبی کوریا کی جیجو ایئر کی پرواز 2216 لینڈنگ کرتے ہوئے حادثے کا شکار ہوئی ہے۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق کہا جا رہا ہے کہ یہ ائیر لائن ٹائروں کی وجہ سے حادثے کا شکار ہوئی ہے۔ لوگ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ جہازوں کے ٹائر کیسے ہوتے ہیں، کیا ٹائروں کی وجہ سے بھی حادثات ہوجاتے ہیں؟
ہوائی جہازوں کے ٹائرز کس صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں؟
ہوائی جہاز کے ٹائرز 38 ٹن تک کا وزن برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ہوائی جہاز کو متوازن انداز میں کھڑا بھی رکھتے ہیں۔ جب جہاز زمین پر اترتا ہے تو اس کی رفتار 170 میل فی گھنٹہ ہوتی ہے اور یہ ٹائر اس تیز رفتاری کے ساتھ ہی زمین سے ٹکراتے ہیں لیکن پھر بھی انہیں کچھ نہیں ہوتا۔ یہ کافی مضبوط اور محفوظ ہوتے ہیں۔
کچھ لوگ جہازوں کے انجن کے متعلق بھی جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ جدید جہازوں میں دو انجن اس طریقے سے نصب کیے جاتے ہیں کہ جہاز ایک انجن پر اڑتا ہے جبکہ دوسرا انجن ریزرو کے طور پر کام کرتا ہے۔
لینڈنگ سے پہلے جہاز کی لائٹس کا آف ہونا؟
جہازوں میں سفر کرنے والے مسافر جانتے ہیں جب جہاز لینڈنگ کے قریب آتا ہے تو جہاز کا عملہ جہاز کی اندرونی لائٹس کو بند یا کم کردیتا ہے۔ اس کا تعلق جہاز کی لینڈنگ یا تکنیکی امور سے نہیں ہوتا بلکہ ایسا مسافروں کی سہولت کے لیے کیا جاتا ہے۔
تاکہ جب مسافر جہاز سے باہر نکلیں تو انھیں باہر کی روشنی میں صاف دکھائی دے، کیونکہ اگر مسافر اندر سے پوری اور تیز روشنی میں باہر نکلیں گے تو انھیں باہر کی روشنی کم نظر آئے گی۔
ہوائی اڑان بھرنے سے قبل جہاز کا عملہ مسافروں کے موبائل فونز آف یا ایرورپلین موڈ پر کروا دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ موبائل فونز کے سگنلز فضائی سفر کے دوران ہوائی جہاز میں سگنلز کے ساتھ مل کر گڑ بڑ کا سبب بنتے ہیں۔ جس کی وجہ سے مسافروں کو موبائل فونز بند یا ایروپلین موڈ پر رکھنے کی تلقین کی جاتی ہے۔
الیکٹرانک ڈیوائسز کا استعمال؟
حالیہ عرصے میں کئی ماہرین کی طرف سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ اب ٹیکنالوجی بہت ترقی کر گئی ہے لہٰذا ہوائی جہاز میں فونز کو ایروپلین موڈ پر کرنے یا بند کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ تاہم کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ جہاز کے اڑنے اور اترنے کے دوران موبائل فونز کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
الیکٹرانک ڈیوائسز اب بھی ایسے سگنلز چھوڑ سکتی ہیں جو طیارے کے کمیونی کیشن اور نیوی گیشن سسٹمز میں برقی مقناطیسی مداخلت کا سبب بن سکتے ہیں اور یہ مداخلت کسی بھی تباہ کن حادثے کو جنم دے سکتی ہے۔ لہٰذا خطرہ کم ہو جانے کے باوجود فضائی سفر کے دوران موبائل فونز اور دیگر ایسی ڈیوائسز کو بند رکھنا یا فلائٹ موڈ/ایروپلین موڈ پر رکھنا ہی بہتر آپشن ہے۔