گزشتہ کئی سالوں سے ریاض، بین الاقوامی تنازعات کو ختم کرانے میں اہم کردار ادا کرتا آ رہا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ اور ان کے روسی ہم منصب کے درمیان گزشتہ ہفتے ریاض میں ہونے والی ملاقات نے، عالمی توجہ حاصل کی اور دو سپر طاقتوں کے درمیان مفاہمت اور روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے خاتمے کی امید پیدا کی، ایسے میں ایک سوال جو بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں آتا ہے کہ دنیا ریاض پر کیوں اعتماد کرتی ہے؟
اتنے سالوں سے، دنیا کے بہت سے ممالک تنازعات کو حل کرنے، تناؤ اور بحرانوں کو کم کرنے اور جنگوں کو ختم کرنے میں مدد حاصل کرنے کے لیے ریاض کا رخ کیوں کر رہے ہیں؟ کچھ لوگ بحث کر سکتے ہیں کہ یہ سعودی عرب کے سیاسی وزن کی وجہ سے ہے۔ تاہم، جب اہم سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والی اور بھی بڑی عالمی طاقتیں، جن میں سے کچھ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رکن بھی ہیں اور ویٹو پاور کے حامل بھی ہیں، وہ بھی تنازعات اور جنگوں کو ختم کرنے میں مدد کے لیے ریاض کا رخ کر رہی ہیں، تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ معاملہ سیاسی اثر و رسوخ سے بالاتر ہے۔
کچھ لوگ یہ دعویٰ بھی کر سکتے ہیں کہ دنیا سعودی عرب پر اس کی مضبوط معیشت اور بااثر مالی حیثیت کی وجہ سے اعتماد کرتی ہے، جو اسے ایک طاقتور اور وسیع پیمانے پر قابل قبول ثالث بناتی ہے۔ پھر جب ہم دوسری قوموں کو دیکھتے ہیں جن میں بہت بڑی بڑی معیشتیں اور اہم جی ڈی پی والے ممالک بھی ہیں لیکن وہ ریاض جیسی ساکھ اور قد کاٹھ نہیں رکھتے تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یہ اعتماد گہرے عوامل سے پیدا ہوتا ہے- جو وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتا ہے، راتوں رات حاصل نہیں ہوتا۔
سچ تو یہ ہے کہ سعودی عرب بے پناہ سیاسی، سفارتی اور اخلاقی اثر و رسوخ کا مالک ہے اور اسے بین الاقوامی تنازعات کے حل میں ایک قابل اعتماد ثالث تسلیم کیا جاتا ہے۔ تاہم، یہ اعتماد اچانک پیدا نہیں ہوا، یہ کئی دہائیوں کی سفارتی کوششوں کا نتیجہ ہے، جس کے دوران ریاض نے دیانتداری، امانت، علاقائی اور عالمی سطح پر امن اور استحکام کے حصول کے لیے مخلصانہ عزم کا مظاہرہ کیا ہے۔
دنیا، ریاض پر اس کی غیر جانبداری، مختلف مسائل سے نمٹنے میں انصاف پسندی، پائیدار اور منصفانہ حل فراہم کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے اعتماد کرتی ہے حتی کہ اس ضمن میں ریاض نے اپنے مخالف فریقوں کا احترام بھی حاصل کیا ہے۔
آج ریاض عالمی سفارت کاری کا ایک مرکزی نقطہ بن چکا ہے، جہاں عالمی رہنما ملتے ہیں، ریاض سے مشورے لیتے ہیں، تنازعات کو حل کرنے اور اختلافات کو ختم کرنے کے لیے ریاض کے تعاون پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جنھوں نے ریاض کو تمام متضاد فریقوں کی طرف سے ایک قابل قبول اور قابل احترام ثالث بنا دیا ہے۔
تاریخ چونکہ ایک بہترین گواہ کے طور پر کام کرتی ہے، آئیے اس سلسلے میں کچھ تاریخی واقعات کو دیکھتے ہیں جو اس بات کو تقویت دیتے ہیں جو ہم نے درجہ بالا سطور میں کہی ہے، اور اس اہم سوال کا جواب دیتے ہیں کہ "دنیا ریاض پر کیوں اعتماد کرتی ہے؟”
ریاض نے 1989 میں "طائف معاہدے” کے ذریعے لبنان کی 15 سالہ خانہ جنگی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا، جس نے لبنان میں امن اور سلامتی کی بنیاد رکھی۔ 1990 میں جب کویت پر حملہ کیا گیا تو ریاض اس کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا رہا، عراقی جارحیت کو پسپا کرنے میں اس کی مدد، کویت کی خودمختاری کو بحال کیا، اور اس کی آزادی کے لیے وسیع بین الاقوامی حمایت کو متحرک کیا۔
ریاض نے 1980 کی دہائی کے دوران مراکش اور الجزائر کے درمیان برسوں کی سیاسی کشیدگی کے بعد مفاہمت پیدا کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا، جس کے نتیجے میں سفارتی تعلقات کی بحالی اور سفیروں کے تبادلے ہوئے، سرحدوں کو دوبارہ کھولا گیا اور دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان سفری ویزا کی شرائط کو ختم کیا گیا۔
مزید برآں، 1980 میں سعودی عرب نے شام اور اردن کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے میں مدد کی جب سابق اسد حکومت نے 20,000 سے زیادہ فوجی اور 600 ٹینک اردن کی سرحد کے ساتھ اس بہانے تعینات کردیے تھے کہ اردن، شامی اپوزیشن رہنماؤں کو پناہ دے رہا ہے۔
اس بحران کا خاتمہ سعودی عرب کے آنجہانی وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل کی قیادت میں سفارتی ثالثی کے بعد شام نے اپنی افواج کے انخلاء سے کیا، ریاض کی کوششوں سے وہاں کشیدگی کو کم کرنے اور علاقائی استحکام کو فروغ دینے میں مدد ملی۔یہ مثالیں واضح کرتی ہیں کہ ریاض نے جنگوں کو روکنے، تنازعات کو حل کرنے اور قوموں کے درمیان بحرانوں کو کم کرنے کے لیے اپنے سیاسی اثر و رسوخ، اقتصادی طاقت اور توانائی سے کس طرح فائدہ اٹھایا ہے۔
یہ وہ عناصر ہیں جنھوں نے ریاض کو اثر و رسوخ کا ایک منفرد مقام عطا کیا ہے اور اسے ایک غیر جانبدار اور قابل اعتماد ثالث کے طور پر اقوام عالم سے منوایا ہے۔
مزید برآں، ریاض نے امن کانفرنسوں اور بین المذاہب مکالمے کی میزبانی میں اہم کردار ادا کیا ہے، دنیا نے ریاض کے امن کے اقدامات کو تسلیم کرتے ہوئے، امن اور استحکام کے عالمی وکیل کے طور پر اس کے کردار کی تصدیق کی ہے۔ان کوششوں کے ذریعے ریاض نے دنیا بھر کے امن کے لیے اپنی پوزیشن کو مضبوط کیا ہے، جس پر آج دنیا بھروسہ کرتی ہے۔
(نوٹ) ڈاکٹر نائف العتیبی : اسلام آباد میں سعودی سفارت خانے کے پریس اٹیچی ہیں۔