کویت، مشرقی عرب کے شمالی کنارے میں خلیج عرب ،جسے خلیج فارس بھی کہا جاتا ہے کے سرے پر واقع ہے، جس کی سرحد شمال میں عراق اور جنوب میں سعودی عرب سے ملتی ہے۔ کویت کی ایران کے ساتھ سمندری سرحدیں بھی ملتی ہیں۔ کویت کی ساحلی لمبائی تقریباً 500 کلومیٹر (311 میل) ہے۔
ملک کی زیادہ تر آبادی دار الحکومت اور سب سے بڑے شہر کویت سٹی میں رہتی ہے۔ کویت کی آبادی لگ بھگ 55 لاکھ افراد پر مشتمل ہے جن میں سے 15لاکھ کویتی شہری ہیں جبکہ باقی 40 لاکھ غیر ملکی کارکن ہیں جو سو سے زائد ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ سترہویں صدی اور اس سے پہلے یہ خطہ ’قرین‘ کے نام سے جانا جاتا تھا جس کے معنی ٹیلا، تودہ اور اونچی زمین کے ہیں۔
جدید ’کویت ‘ کی تاریخ سترہویں صدی کے اواخر اور اٹھارویں صدی کے آغاز سے شروع ہوتی ہے۔ بنو خالدکا قبیلہ سرزمین نجد سے تعلق رکھتا تھا۔ انھوں نے اس شہر کی داغ بیل ڈالی اور شہر کے اطراف میں قلعہ کی تعمیر کروائی۔ قلعہ کی دیواریں پہلی بار سنہ 1767ء میں پایہ تکمیل کو پہنچیں۔
آل صباح کا تعلق اسی قبیلے سے ہے، عقیدہ اور منھج کے اعتبار سے یہ خاندان آل سعود شیخ محمد بن عبد الوہاب کے منھج سے تعلق رکھتا ہے۔ نجد سے نکل کر اس خاندان نے یہاں آکر سکونت اختیار کی۔ اس عہد میں یہ شہر پھلا پھولا اور دنیا والوں کی توجہ کا مرکز بنا۔
آل صباح نے اس کی تعمیر و ترقی میں بڑی قربانیاں دی ہیں۔ لوگوں نے ان کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے سنہ 1752ء میں صباح بن جابر کے ہاتھوں پر بیعت کی اور ان کو اپنا حاکم تسلیم کیا۔ ایک تجارتی شہر پر ہر کسی کی نظر ہوتی ہے۔ قدیم زمانے ہی سے کویت ایک اہم تجارتی مرکز مانا جاتا تھا اور اس کی بندرگاہیں بین الاقوامی تجارت اور لین دین کے سلسلے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔
جدید کویت کی تعمیر کے بعد اس پر عثمانی ترکوں کی نظر تھی، 19ویں صدی میں عثمانیوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔ 23 جنوری 1899 میں شیخ مبارک الصباح نے برطانیہ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، جس کا مقصد عثمانیوں کے چنگل سے کویت کو نکالنا تھا۔ اس معاہدہ کی وجہ سے برطانیہ، کویت کی خارجی پالیسی پر مکمل طور پر حاوی ہو گیا۔
اس کے بعد سنہ 1913ء میں اینگلو عثمان سمجھوتے پر دستخط کے بعد حکومتِ برطانیہ اور عثمانی حکومت نے امیرِ کویت شیخ مبارک الصباح کوخود مختار کویت کے حکمران کے طور پر نامزد کردیا۔ مگر پہلی جنگ عظیم کے شروع ہونے کے فورا ًبعد اس معاہدہ کو توڑتے ہوئے برطانیہ نے اعلان کیا کہ کویت سلطنتِ برطانیہ کے ماتحت ایک آزاد بادشاہی نظام والا ملک ہوگا۔
بہرکیف نظام چلتا رہا، شیخ مبارک الصباح کے دور میں کویت میں تعلیمی بیداری پیدا ہوئی۔ سن 1911 ء میں مدرسہ مبارکیہ کے نام سے کویت کا سب سے پہلا تعلیمی ادارہ قائم کیا گیا۔ یہ نسبت شیخ مبارک ہی کی طرف تھی۔ انھیں کی ایماء پر سنہ 1914ء میں’مستشفیٰ امریکی‘ کے نام سے ’کویت سٹی‘ میں ایک ہسپتال کی بنیاد رکھی گئی۔
یہ کویت کی پہلی عمارت تھی جس میں سمینٹ اور لوہے کا استعمال ہوا۔ سنہ 1915ء میں جب شیخ مبارک کا انتقال ہوگیا تو ان کے بڑے بیٹے شیخ ’جابر المبارک الصباح‘ ان کے جانشین بن گئے۔ ان کی مدّت حکومت صرف دو سال تھی۔ ان کے بعد ان کے برادر شیخ ’سالم المبارک الصباح ‘ نے تاج و تخت سنبھالا۔ سنہ 1921ء میں شیخ احمد جابر الصباح حکومت کی کرسی پر براجمان ہوئے۔ آپ بڑے دلیر، حاضر دماغ اور دور اندیش لیڈر تھے۔ مشکل گھڑیوں میں بڑی آسانی سے اپنی قوم کو بچ نکلنے کا راستہ دکھا دینا ان کی خا صیت تھی۔
سنہ 1937ء میں شیخ احمد جابر الصباح کے عہد ہی میں کویت میں پہلی بار پٹرول دریافت ہوا اور 30 جون 1946کو پہلی بار پٹرول باہر بیچنا شروع کیا۔ سنہ 1948ء میں شیخ احمد جابر الصباح ہی کے دورِ حکومت میں ’احمدی‘ شہر کی بنیاد ڈالی گئی جو انھیں کے نام کی طرف نسبت رکھتا ہے۔
سنہ 1950ء میں شیخ احمد جابر الصباح وفات پاگئے اور عبد اللہ السالم الصباح کویت کے امیر قرار دیے گئے۔ یہ وہ پہلے امیر تھے جنھوں نے کویت میں سیاسی زندگی کو نظم سے جوڑا اور یہاں سیاست کو ایک نیا رُخ دیا گیا۔ انھوں نے اس کے لیے ایک دستور بھی وضع کیا جس کی وجہ سے انھیں ’ابو الدستور‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
ان کے عہد میں وسیع پیمانے پر تعمیراتی کام کا آغاز ہوا جس کی بنا پر قلعہ کی دیواریں منہدم کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا اور سنہ 1957ء میں قلعہ کے پانچ مرکزی دروازوں کو باقی رکھتے ہوئے باقی ساری دیواریں گرادی گئیں۔
شیخ احمد جابر الصباح کے بعد شیخ عبد اللہ السالم الصباح کویت کے امیر بن گئے۔ یہ کویت کے گیارہویں امیر تھے۔ انھیں کی کاوشوں اور کوششوں سے کویت نے آزادی کا پرچم لہرایا۔
کسی بھی ملک کی آزادی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے داخلی اور خارجی امور کو نمٹانے میں خود کفیل رہے اور ان میں کسی غیر کی دخل اندازی نہ ہو۔ اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے امیر موصوف نے 1959ء میں ملک کے داخلی امور اور معاملات سے غلامی کی پرچھائی کو ختم کرنے کے سلسلے میں بہت سے اہم فیصلے صادر کیے۔
یہ آزادی کی جانب کویت کا بڑھتا ہوا پہلا قدم تھا۔ اسی سال دسمبر میں ملک کے عدالتی نظام کو مضبوط و مستحکم کرنے کے سلسلے میں بھی ایک مکتوب فرمان جاری کیا گیا جس کی وجہ سے اہلِ کویت اندرونِ ملک حالات سے نمٹنے اور درپیش مسائل کو خود حل کرنے کے قابل ہو گئے۔
اس وقت تک کویت کا عدالتی نظام بھی دستِ غیر میں تھا۔ شیخ عبد اللہ السالم الصباح حکومت برطانیہ پر دباؤ بناتے رہے کہ وہ 23 جنوری 1899 ءکے معاہدہ کو معطل کر دے۔ ان کی یہ کوشش رنگ لائی اور برطانیہ اس معاہدہ کو معطل کرنے پر مجبور ہو گیا۔ آخر کار 19 جون 1961ء کویت اور برطانیہ کا معاہدہ منسوخ کر دیا گیا اور کویت میں آزادی کی صبح نمودار ہوئی۔
حصولِ آزادی کے بعد 11نومبر 1962ء میں وضع شدہ نئے دستور کا اجراء ہوا۔ شیخ عبد اللہ السالم الصباح کو آزاد کویت کے پہلے امیر ہونے کا شرف حاصل ہے۔ وہ 1965ء میں انتقال کرگئے۔ ان کی جگہ شیخ صباح السالم الصباح کویت کے اگلے امیر منتخب ہوئے۔وہ 31 دسمبر 1977 تک کویت کے حکمران رہے۔
ان کے بعد شیخ جابر احمد الصباح نے کویت کے حکمران ہونے کا شرف حاصل کیا، وہ 15 جنوری 2006 تک کویت کے حکمران رہے۔ ان کے بعدشیخ سعد عبد اللہ سالم الصباح مختصر وقت کے لیے حکمران بنے، وہ 15 جنوری 2006 سے 24 جنوری 2006 تک یعنی صرف 9 دن کے لیے کویت کے حکمران بنے۔
بعد ازاں شیخ صباح الاحمد الجابر الصباح نے کویت کی امارت کا منصب سنبھالا، وہ 29 ستمبر 2020 تک کویت کے حاکم رہے۔ ان کی وفات کے بعد 30 ستمبر 2020 کو شیخ نواف الاحمد الجابر الصباح نے کویت کی حکمرانی کا حلف اُٹھایا اور اپنی وفات 16 دسمبر 2023 تک کویت کے امیر رہے۔ ان کے بعد حالیہ کویتی حکمران شیخ مشعل الاحمد الجابر الصباح نے 16 دسمبر 2023 کو حلف اٹھایا اور تاحال وہی کویت کے حکمران ہیں۔
1961 ءکی آزادی کی یاد میں ہر سال 25 فروری کو کویت اپنا یوم آزادی مناتا ہے۔ جشنِ آزادی پورے جوش و خروش سے منایاجاتا ہے۔ اور پورے کویت میں ہر سو اس کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ جبکہ اس سے اگلے روز 26 فروری کو کویتی لوگ اپنا یوم التحریر مناتے ہیں۔
دراصل، 2 اگست 1990 ءکو اُس وقت کے عراقی صدر صدام حسین کے حکم پر عراقی فوج نے کویت پر حملہ کر دیا تھا۔ دو دن تک فوجی کارروائی کے بعد 4 اگست 1990 ءکو عراقی فوج کویت پر مکمل طور پر قابض ہو گئی تھی۔ بالآخر 26 فروری 1991ء کو کویت نے صدام حسین اور عراقی فوج سے آزاد ی حاصل کی تھی۔ اسی وجہ سے کویت میں ہر سال 25 فروری کو یوم الوطنی اور اس سے اگلے روز 26 فروری کو یوم التحریر منایا جاتا ہے۔
کویت خاموش اسلامی ملک ہے، اس کے مالیاتی اور خیراتی اداروں نے دنیا بھر میں اسلامی مراکز اور مساجد تعمیر کرنے پر بیش بہا سرمایہ خرچ کیا ہے۔ کویت کے صالح حکمران دنیا بھر کے مسلمانوں پر دل کھول کر خرچ کرتے رہے ہیں۔ کویت کے مشہور قاری الشیخ مشاری راشد العفاسی بھی دنیا بھر میں اپنی خوبصورت قرآنی آواز کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔
خادم الحرمین الشریفین ملک سلمان بن عبد العزیز، سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، امارات کے وزیر اعظم شیخ محمد بن زید، بحرین کے بادشاہ شیخ حمد بن عیسی آل خلیفہ، قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد، پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف اور دیگر حکمرانوں نے کویت کو اس کے یوم الوطنی اور یوم التحریر پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کویتی حکمرانوں اور عوام کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔