سوڈان میں اس وقت زبردست جنگ جاری ہے، سرکاری فوج دوبارہ خرطوم کا کنٹرول حاصل کرنے کے دعوے کر رہی ہے جبکہ غیر سرکاری فوج کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے، ابھی حالات ہمارے کنٹرول میں ہیں، خرطوم میں آخر چل کیا رہا ہے؟
اس معاملے کو جاننے کے لیے ہمیں تھوڑا سا پیچھے جانا ہوگا، اس وقت جن دو جرنیلوں اور ان کے دھڑوں کے درمیان جنگ جاری ہے ان کے پس منظر کو سمجھنا ہوگا۔ جنرل عبد الفتاح البرھان سوڈان کے سرکاری فوج کے کمانڈر انچیف ہیں جبکہ جنرل حمدان داقلو جنھیں جنرل حمیدتی بھی کہا جاتا ہے، پیرا ملٹری فورسز کے کمانڈر انچیف ہیں۔
چند سال قبل جب سوڈانی افواج دار فور میں نسل پرستوں کے خلاف جنگ لڑ رہی تھی تب انہی ملیشیا کمانڈر جنرل حمیدتی کی خدمات حاصل کرتے ہوئے دار فور کے نسل پرستوں سے نمٹا گیا تھا۔
بعد ازاں جنرل حمیدتی کے ساتھیوں نے سوڈان کی سرکاری فوج کے ماتحت ایک غیر سرکاری فوج کی حیثیت حاصل کرلی تھی۔ یہ واضح رہے کہ سوڈان میں اکثر ملٹری کی حکومت ہی قائم رہی ہے، سابق صدر عمر البشیر بھی سوڈانی فوج کے ہی آدمی تھے لیکن وہ اپنے پر سے یہ چھاپ ہٹانا چاہتے تھے۔
عمر البشیر غیر سرکاری فوج کے سربراہ جنرل حمیدتی کو اپنے قریب کرنا چاہتے تھے، صدر البشیر کا خیال تھا کہ اگر سرکاری فوج اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اسے روکنے کے لیے ایک متبادل فورس ہونی چاہیے۔
لیکن 2019 کے عوامی مظاہروں کے بعد سرکاری فوج کے سربراہ جنرل عبد الفتاح البرھان نے غیر سرکاری فوج کے سربراہ جنرل حمیدتی کو اپنے ساتھ ملا کر صدر عمر البشیر کے اقتدار کا تختہ اُلٹ دیا۔ شروع میں سول ملٹری تعاون چلتا رہا، بعد ازاں اپریل 2021 میں جنرل برھان نے اقتدار پر خود قبضہ کرلیا اور جنرل حمیدتی کو اپنا نائب بنادیا۔
اپریل 2023 تک یہ سیٹ ایپ برقرار رہا، اس دوران جنرل برھان نے سابق صدر عمر البشیر کے لوگوں کو دوبارہ اہم عہدے دینا شروع کردیے، ایسا کرنے سے پہلے انھوں نے جنرل حمیدتی کو اعتماد میں نہیں لیا۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ جنرل برھان کا تعلق خرطوم کی اشرافیہ سے ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ دار فور کے لوگ دیہاتی، اُجڈ اور غیر تعلیم یافتہ ہوتے ہیں، انھیں اقتدار نہیں دینا چاہیے۔ چنانچہ جنرل برھان خاموشی سے عمر البشیر کے لوگوں کی یعنی خرطوم کی اشرافیہ کی ایوان اقتدار میں واپسی کروا رہے تھے۔
واضح رہے کہ غیر سرکاری فورسز اور ان کے سربراہ جنرل حمیدتی کا تعلق دار فور سے ہے۔ دار فور وہی مشہور جگہ ہے جہاں کے سابق حکمران علی بن دینار تھے۔ جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے حکمرانی کے زمانے میں مدینہ منورہ میں میقات کے مقام پر کنویں کھدوائے تھے جنھیں ابیار علی کہا جاتا ہے۔
رفتہ رفتہ جنرل حمیدتی کو اس بات کا شک ہونے لگا کہ انھیں اقتدار سے الگ کیا جا رہا ہے، انھوں نے دار فور کے اپنے دیگر گروہوں سے مشاورت شروع کردی۔ سب سے مشاورت کے بعد جنرل حمیدتی نے اپریل 2023 میں جنرل برھان کے خلاف بغاوت کردی، خرطوم میں گھمسان کا رن پڑا، حنرل حمیدتی کے حامیوں نے صدارتی محل اور خرطوم کے ائیرپورٹ پر قبضہ کرلیا۔
اگلے دو سال تک غیرسرکاری فورسز کی خرطوم پر حکومت قائم رہی جسے جنرل حمیدتی یعنی جنرل حمدان داقلو لیڈ کرتے رہے۔ گزشتہ چند روز سے سوڈان کی سرکاری فوج نے جنرل برھان کی کمان میں دوبارہ خرطوم پر دھاوا بولا ہے اور سرکاری محل واپس لینے کا دعوی کیا ہے۔
دوسری طرف جنرل حمیدتی نے سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دعوی غلط ہے، خرطوم پیرا ملٹری فورسز یعنی غیر سرکاری فورسز کے قبضے میں ہے۔ بہرحال خرطوم میں اس وقت دوبارہ جنگ جاری ہے۔ دو جرنیلوں کے بیچ سوڈان کے عوام پس رہے ہیں۔ 28،000 سے زیادہ لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ 11 ملین لوگ ہجرت کرگئے ہیں، اور جنگ ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔
سوڈان جو تمام عرب ممالک کو اناج، غلہ، گوشت، جانور، پھل، سبزیاں اور چمڑے کی اشیاء ایکسپورٹ کرتا تھا، اب جنگوں کی نذر ہو کر رہ گیا۔ قاری نورین رحمہ اللہ کا خوبصورت وطن ، جہاں سے قرآن کریم کی آوازیں اور لہجے پوری دنیا کو مسحور کیے ہوئے تھے، اب آگ اور بارود میں جل رہا ہے۔