استنبول کے میئر اکرام امام اوغلو کی گرفتاری نے ترکی کو ایک نئے سیاسی بحران میں دھکیل دیا ہے۔ یہ محض ایک گرفتاری نہیں، بلکہ صدرطیب رجب اردوغان اور حزب اختلاف کے درمیان دو دہائیوں پر محیط کشمکش کا ایک نیا موڑ ہے۔ امام اوغلو، جو ریپبلکن پیپلز پارٹی (CHP) کے نمایاں رہنما ہیں، جن کو مبینہ بدعنوانی اور دہشت گردی کے مبینہ الزامات میں گرفتار کیا گیا ہے۔ تاہم، ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک سیاسی مکروہ چال ہے، جس کا مقصد اردوغان کے سب سے بڑے سیاسی حریف اور ممکنہ صدارتی امیدوار کو راستے سے ہٹانا ہے۔
امام اوغلو کی گرفتاری کے بعد ترکی کے 55 سے زائد شہروں میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔ استنبول اور انقرہ میں پولیس نے مظاہرین پر ربڑ کی گولیاں، آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا۔ نوجوانوں نے نعرے لگائےڈکٹیٹر بزدل ہوتے ہیں اورAKP ہمیں خاموش نہیں کر سکتے ہیں احتجاج کو دبانے کے لئے ریاستی قوت کا بھی مظاہرہ کیا گیا اور اس سلسلے میں بڑے پیماپر گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں ، وزیر داخلہ کے مطابق، 323 افراد کو حراست میں لیا گیا، لیکن یہ مظاہرےتاحال تازہ ترین صورتحال کے مطابق تھمنے کا نام نہیں لے رہےہیں ۔
ترکی کی معیشت پہلے ہی مشرق وسطی میں بدامنی کے باعث سست روی اور چیلنجز کا سامنا کررہی ہے اور ترک کرنسی لیرے کی گراوٹ سے بری طرح متاثر ہے۔ امام اوغلو کی گرفتاری نے اس موجودہ سیاسی صورتحال کے ساتھ معاشی بحران کوبھی اور گہرا کر دیا ہے ترک لیرا کی قدر میں تیزی سے کمی جبکہ اسٹاک مارکیٹ میں 8% تک گراوٹ ترک معاشی بحران کو عیاں کرتا ہےاوموجودہ سیاسی عدم استحکام غیرملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد مزید کم ہونے کے امکانات ہیں ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ سیاسی بحران جاری رہا، تو ترکی مکمل معاشی بدحالی کی طرف جا سکتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ترکی کی ساکھ پہلے ہی متاثر ہو چکی ہے، اور یہ صورتحال ملک کو قرضوں کے گہرے گڑھےمیں دھکیل سکتی ہےصدررجب طیب اردگان کے دوراقتدار میں ترکی کی معیشت مثب انداز میں پھلی پھولی ہے اور دنیا کی بڑی معیشتوں میں ابھرکر سامنے ہےجس کی پوری دنیا بھی تائیدکرتی ہے اور اس معاشی کامیبای میں طیب رجب اردگان کی بہترین نجمہوری پالیسیااں کارفرماتھی جس میں صدر رجب طیب اردگان نےعوام کی حمایت سے فوجی بغاوت کو کچل دیا تھا ۔ اردوغان کا سب سے بڑا چیلنجر سمجھا جاتا ہے۔ ان کی گرفتاری نے CHP کے حامیوں میں غم و غصہ بھڑکا دیا ہے۔ اگرچہ اردوغان نے اپنی طاقت کو مضبوط کر لیا ہے، لیکن معاشی بحران اور عوامی بے چینی ان کے لیے سنگین خطرہ بن سکتی ہے اگر یہ سیاسی بحران جاری رہا، تو ترکی مکمل معاشی بدحالی کی طرف جا سکتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ترکی کی ساکھ پہلے ہی متاثر ہو چکی ہے، اور یہ صورتحال ملک کو قرضوں کے گہرے گڑھے میں دھکیل سکتی ہے۔
امام اوغلو کو 2028 کے صدارتی انتخابات میں اردوغان کا سب سے بڑا چیلنجر سمجھا جاتا ہے۔ ان کی گرفتاری نے CHP کے حامیوں میں غم و غصہ بھڑکا دیا ہے۔ اگرچہ اردوغان نے اپنی طاقت کو مضبوط کر لیا ہے، لیکن معاشی بحران اور عوامی بے چینی ان کے لیے سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔ترکی کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی فوج یا حکومت نے سیاسی مخالفین پر کریک ڈاؤن کیا، اس کے ناگفتہ بہ نتائج برآمد ہوئے۔ کیا امام اوغلو کی گرفتاری ترکی کو نئے انتشار کی طرف لے جائے گی؟ یا پھر اردوغان ایک بار پھر اپنی سیاسی چالاکی سے اس بحران پر قابو پا لیں گے؟اس سارے سیاسی بحران نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ ترکی کی سیاست اب کبھی پہلے جیسی جمہوری نہیں ہوگی۔۔
کیا ترکی ایک اور خانہ جنگی کے دہانے پر کھڑا ہے؟ کیونکہ ترکی کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی فوج یا حکومت نے سیاسی مخالفین پر کریک ڈاؤن کیا، اس کے ناگفتہ بہ نتائج برآمد ہوئے۔ کیا امام اوغلو کی گرفتاری ترکی کو نئے انتشار کی طرف لے جائے گی؟ یا پھر اردوغان ایک بار پھر اپنی سیاسی حکمت عملی سے اس بحران پر قابو پا لیں گے؟
ترکی میں جمہوریت اور آمریت کے درمیان جاری کشمکش کا ایک نیا باب ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ترکی میں انتخابی عمل کے پیچھے جو کچھ چل رہا ہے وہ زیادہ تشویشناک ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں کی جیل بھرنا، ناقدین کو خاموش کرانا، اور میڈیا پر مکمل کنٹرول – یہ سب ایک ایسے نظام کی نشاندہی کرتے ہیں جہاں جمہوریت کا لباس پہن کر درحقیقت آمریت کو برقرار رکھا جا رہا ہے۔ امام اوغلو جیسے رہنما، جو تین بار استنبول کے میئر منتخب ہو چکے ہیں، اس نظام میں بھی عوام تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
لیکن اب جبکہ ان پر بدعنوانی کے سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں، ترکی کی عدالتی نظام کی آزادی ایک بار پھر سوالوں کے گھیرے میں ہے۔ بین الاقوامی مبصرین کا ماننا ہے کہ یہ سیاسی انتقام کا معاملہ ہے، جبکہ حکومت قانون کی بالادستی کا دعویٰ کرتی ہے۔
71سالہ اردوغان اور 53 سالہ امام اوغلو کی یہ کشمکش محض دو افراد کی جنگ نہیں، بلکہ ترکی کے مستقبل کا تعین کرنے والی ایک تاریخی جدوجہد ہے۔ ایک طرف اردوغان ہیں جو دو دہائیوں سے طاقت میں ہیں، دوسری طرف امام اوغلو جو نئی نسل کی امیدوں کا مرکز بن چکے ہیں۔
آخر میں، ترکی ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے۔ کیا ملک میں جمہوریت کی بقا ممکن ہوگی؟ یا پھر آمرانہ رجحانات مزید مضبوط ہوں گے؟ امام اوغلو کا یہ بیان کہ "میں نہیں جھکوں گا” شاید ترکی کی عوامی خواہشات کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عوامی آواز کو دبانے والے اس نظام میں یہ آواز کامیاب ہو پائے گی؟ ترکی کا مستقبل اس سوال کا جواب تلاش کر رہا ہے۔لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جب عوام کا صبر جواب دے جاتا ہے تو پھر کوئی طاقت انہیں روک نہیں سکتی۔ کیا ترکی کے عوام اپنی جمہوریت کو بچانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے؟ یا پھر اردوغان کی سیاسی حکمت عملی ایک نئی تاریخ رقم کرے گی؟ وقت ہی بتائے گا لیکن ایک بات طے ہے کہ ترکی کا یہ بحران صرف ترکی تک محدود نہیں رہے گا۔ اس کے جھٹکے پورے خطے کو ہلا کر رکھ دیں گے۔