ایران اور اسرائیل کے درمیان پچھلی چار دھائیوں سے جاری آنکھ مچولی اب قدرے سنجیدہ ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اسماعیل ہنیہ اور حسن نصر اللہ کی صورت میں ہونے والا نقصان ایران کی سُبکی کے ساتھ ساتھ اس کی انا کا ایشو بھی بن چکا ہے۔
خلیجی ممالک کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ ہوجائے اور یہ محاذ آرائی ختم ہو تاہم میری رائے یہ ہے کہ یہ لڑائی اب جلدی ختم نہیں ہوگی۔ امن معاہدوں کی کامیابی کا انحصار مستقبل کے تنازعات سے بچنے کے سنجیدہ رویوں پر ہوتا ہے۔
ایران اگر کچھ لچک پیدا کر بھی لے تو امریکہ اور برطانیہ کی اسرائیل نوازی کو کیسے روکا جائے گا؟ گُتھی اُلجھائی تو ایران نے ہی تھی لیکن اب اسے خلیجی ممالک کے علاوہ کوئی سلجھانے کی کوشش بھی تو نہیں کر رہا۔
امریکہ اور برطانیہ نے اسرائیل کو کچھ اس نوعیت کا سیاسی اور عسکری تعاون پیش کردیا ہے کہ اسرائیل امریکہ اور برطانیہ کی بندوق سے خطے بلکہ دنیا میں موجود اپنے سارے دشمنوں کو مارڈالنے پر تُلا بیٹھا ہے۔ دوسری طرف ایران جو پراکسی وار کا منجھا ہوا کھلاڑی ہے، لڑائی کے شُعلے اپنے آنگن تک لے آیا ہے اور اب اسے نہ بُجھا سکتا ہے اور نہ اس میں خود جلنا چاہتا ہے۔
ایک روز قبل ایران نے تل ابیب پر دو سو سے زائد بلیسٹک میزائل داغے ہیں۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ اسرائیل اس کا جواب نہ دے؟ دنیا جانتی ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کے تعاون سے اسرائیل اس وقت انتہائی جدید جنگی تکنیک سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ممکن ہے وہ ایران پر میزائل کی بجائے کوئی ایسا حملہ کردے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو۔
سات اکتوبر کے حملے اتنے حیران کن تھے کہ اسرائیل انتہائی خوف زدہ ہوگیا۔ اس نے خطے میں اپنے ہر دشمن سے جنگ شروع کردی۔ حماس، حزب اللہ اور حوثیوں کے ساتھ بیک وقت کئی نئے محاذ کھول لیے۔ اس جنگ میں اس کی برتری فی الحال قائم ضرور ہے لیکن اس طرح اسرائیل کسی کو بھی ختم نہیں کر پائے گا۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور وزیر خارجہ شہزادہ فرحان بن فیصل نے اپنے حالیہ بیانات میں ایران اور اسرائیل، دونوں کو ٹھنڈے دماغ سے سوچنے کی دعوت دی ہے۔ فرحان بن فیصل نے گزشتہ ہفتے امریکی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا: اگر اسرائیل امن کا خواہاں ہے تو اسے ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑے گا، انھوں نے واضح کہا تھا کہ: پُر امن اور آزاد فلسطین میں ہی اسرائیل کا امن ہے۔
اسرائیل، اسماعیل ہنیہ اور حسن نصر اللہ کو قتل کر چکا ہے، ہزاروں فلسطینی شہید کر چکا ہے، لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر چکا ہے، ایران کا ایک بڑا خوفناک حملہ گزار چکا ہے، اسے اپنے دشمن کی تمام تر طاقتوں اور صلاحیتیوں کا پورا ادراک ہے، وہ ایران کو بڑا جواب دینے کی تیاری بھی کرچکا ہے، تو کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ وہ اب حملہ نہیں کرے گا؟
امن معاہدے کی صورت میں اسرائیل غزہ کا مکمل کنٹرول چاہتا ہے، حماس اور حزب اللہ کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے، گریٹر اسرائیل کی تکمیل کے لیے فلسطین کو بھی ہتھیانا چاہتا ہے، اور یہ بات ایران تو کیا کسی مسلمان ملک کے لیےبھی ناقابل تسلیم ہے۔
ایسے میں جو اقوام یا اثر و رسوخ رکھنے والی عالمی طاقتیں غیرجانبداری سے کردار ادا کرسکتی تھیں وہ یکطرفہ طور پر اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہوگئی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اب تک 12 ماہ کے دوران اسرائیل نے متعدد محاذوں پر طویل جنگیں لڑنے کی ہمت دکھائی ہے ان میں غزہ، مغربی کنارہ، لبنان، ایران اور یمن شامل ہیں۔
بلاشبہ اسرائیل نے خوفناک انٹیلی جنس اور جدید فوجی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ لبنانی سرزمین میں باقاعدہ ایک فرلانگ بھی داخل ہوئے بغیر، اس نے حزب اللہ کی اکثر لیڈرشپ کو ختم کردیا ہے۔ اس نے ایرانی پاسداران انقلاب کے کئی رہنماؤں کو بھی نشانہ بنایا ہے اور تہران میں ہی اسماعیل ہنیہ کو بے خوفی سے قتل کیا ہے۔
اندرونی سیاسی اختلافات کے باوجود اسرائیل کی ساری سیاسی لیڈرشپ اب نتن یاہو کے ساتھ کھڑی ہوگئی ہے۔ اسرائیل کی سیاسی اشرافیہ نتن یاہو کی مذہبی جنونیت کو پسند نہیں کرتی۔ تاہم اب اس کے مخالفین بھی اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اسرائیل اب پہلے سے کہیں زیادہ اور بڑے پیمانے پر تصادم کے لیے تیار ہے۔ اس کے بحری بیڑے ایران کے ساتھ ایک بڑی جنگ کے لیے الرٹ ہیں، وہ خطے کی سب سے بڑی فوجی تیاریوں میں مصروف ہے۔
دوسری طرف روس اور چین، ایران کی مدد کر سکتے ہیں لیکن تاحال دونوں بڑی طاقتوں نے اپنی حکمت عملی واضح نہیں کی ہے۔ لیکن اگر یہ دونوں ممالک کھلے بندوں ایران کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں اور فلسطین کی محبت میں افغان طالبان بھی عارضی طور پر ایران کی حمایت میں آجاتے ہیں تو یہ جنگ طویل اور خوفناک ہو سکتی ہے۔
ایسے میں پاکستان کی جغرافیائی اہمیت میٹر کرے گی۔ ایک غیر سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کسی بیرونی حملے کی صورت میں اپنی فضائی حدود کی حفاظت کرے گا اور اسے ایران کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا۔ پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ خواجہ آصف نے اپنے ایک حالیہ بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان کی فوجی استعداد اسرائیل سے زیادہ ہے۔
پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ روس اور چین، ایران کی حمایت کیوں کریں گے؟ کیا صرف اس وجہ سے کہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ ہے؟ بہرحال اس کے لیے کچھ ہی انتظار باقی ہے شاید
عالمی مبصرین کے مطابق اسرائیل غزہ سے باہر ایک بڑی جنگ کی تیاری کر رہا ہے۔ اس نے ملک بھر میں بیک اپ پاور جنریٹرز فعال کردیے ہیں، پانی کے ٹینکوں کو بھر دیا ہے، سائبر سکیورٹی کے اقدامات کو تیز کردیا ہے، اور کئی مہینوں کے لیے کھانے کی اشیاء کو ذخیرہ کر لیا ہے۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ زمین پر، زیر زمین اور سمندر میں مختلف ذرائع سے بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ اگر برقی گرڈ تباہ ہو جاتا ہے، تو بیک اپ سسٹم سات منٹ کے اندر بجلی بحال کر دے گا۔ آئرن ڈوم کے ناکام ہونے کی صورت میں اسرائیل نے دفاع کے کئی دوسرے طور طریقے بھی ایجاد کرلیے ہیں۔
اسرائیل جو پہلے اپنی قریبی اور نسبتاً کمزور ریاستوں، مصر، اردن، اور شام وغیرہ سے لڑتا رہتا تھا، اب اس کا ہدف ایران ہے۔ ایران کا جوہری سسٹم اور دور تک مار کرنے والا میزائل سسٹم اسرائیل کے لیے پریشان کن رہا ہے لیکن حالیہ حملوں میں اسرائیل نے ایرانی میزائلوں کو ناکام بناکر اپنا یہ خوف بھی کچھ کم کرلیا ہے۔
اب تک کی جنگ میں ایران اپنی پراکسیوں کو بچانے میں ناکام رہا ہے۔ حماس اور حزب اللہ کی مرکزی لیڈرشپ کا خاتمہ ایران کے لیے اچھا شگون نہیں ہ
۔ ایران نے اردن کو بھی اس جنگ میں ڈالنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ کوشش ناکام ہوچکی ہے۔ شام کے بشار الاسد نے بھی ایران کو ہوائی اڈے دینے سے انکار کردیا ہے۔
اب خطے میں صرف یمن کے حوثی گروہ کے علاوہ ایران کے پاس کوئی دوست اور جنگی معاون نہیں ہے۔ وہ بھی حسن نصر اللہ کی موت کے بعد کافی خاموش ہوگئے ہیں۔
البتہ خلیجی ممالک نے باہمی طور پر اس جنگ سے الگ رہنے اور کسی بھی فریق کو اپنی فضائی حدود دینے سے انکار کیا ہے۔
دیر ہو یا سویر، یہ امکان موجود ہے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان ایک بڑی جنگ بالکل قریب کھڑی ہے۔ الا یہ کہ کوئی حیرت انگیزی جنم لے اور دونوں ممالک امن قائم کرنے پر راضی ہوجائیں۔