ایک منظم کوشش کی جا رہی ہے بعض ناعاقبت اندیش ، خود ساختہ تبصرہ نگاروں کی جانب سے جو نہ تو دینی بصیرت رکھتے ہیں اور نہ ہی اسلامی فقہ کا درست فہم – اُن کے مطابق پاکستان کو صرف ایک مسلم ملک تو مانا جائے، مگر اسلامی ریاست نہ سمجھا جائے، اور اِس بنا پر اسے دارالایمان قرار دینا غلط ہے ۔
ایسے دعوے اکثر سطحی سیاسی تجزیوں پر مبنی ہوتے ہیں، جن میں اُس آئینی، قانونی اور نظریاتی بنیاد کو نظرانداز کیا جاتا ہے جس پر پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔آئینِ پاکستان میں واضح طور پر درج ہے کہ : آرٹیکل 2 – "اسلام پاکستان کا ریاستی مذہب ہوگا۔”آرٹیکل 227 – "تمام موجودہ قوانین کو قرآن و سُنّت کے احکام کے مطابق ڈھالا جائے گا ۔”
ٱلْحَمْدُ لِلّٰهِ پاکستان نہ صرف ایک مسلم اکثریتی ملک ہے جہاں 96.5 فیصد آبادی مسلمان ہے بلکہ اس پر مسلمان حکمران حکومت کرتے ہیں اور پارلیمان و مسلح افواج کا 95 فیصد سے زائد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے ۔
1949 کی قراردادِ مقاصد جس میں واضح طور پر اللّٰه تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کیا گیا — سے لے کر آئین کے آرٹیکل 31 (1) تک ، جس میں کہا گیا کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نافذ نہیں کیا جائے گا – پاکستان نے ہمیشہ اپنی ریاستی ساخت میں اسلامی اصولوں کو مرکزی حیثیت دی ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل (CII) حکومت کو ایسے قوانین پر آگاہی دیتی ہے جو اسلامی تعلیمات سے متصادم ہو سکتے ہوں۔
پاکستان میں زکوٰۃ کا نظام 1980 میں صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں "زکوٰۃ و عشر آرڈیننس” کے تحت نافذ کیا گیا ۔ عشر فصلوں پر لاگو کیا جاتا ہے ، جبکہ زکوٰۃ ہر سال بینک کھاتوں سے خودکار طریقے سے 2.5 فیصد کی شرح سے کٹوتی کی جاتی ہے ۔
حدود آرڈیننس 1979 میں مرحوم صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں پاکستان میں نافذ کیے گئے۔ ان قوانین میں زنا کا آرڈیننس جس کے تحت زنا پر سزا مقرر کی گئی، قذف کا آرڈیننس شامل ہے جس میں جھوٹے الزامِ زنا پر سزا دی گئی ، منشیات کی ممانعت کا آرڈیننس شامل ہے جس کے تحت شراب اور نشہ آور اشیاء پر پابندی عائد کی گئی – چوری اور ڈکیتی کی حد جس میں چوری پر ہاتھ کاٹنے اور کوڑے مارنے جیسی سزائیں شامل کی گئیں، اور مسلح ڈکیتی کے لیے حد کا نفاذ بھی شامل ہے۔
قِصَاص — یعنی قتل یا جسمانی نقصان کی صورت میں برابر کا بدلہ پاکستان میں قانونی طور پر تسلیم شدہ اور نافذ العمل ہے ۔ "قِصَاص و دیت آرڈیننس” کو پاکستان پینل کوڈ (PPC) کا حصہ بنایا گیا ہے۔
1980 میں پاکستان نے وفاقی شرعی عدالت (Federal Shariat Court) قائم کی ، جو ایسے قوانین کو کالعدم قرار دینے کی مجاز ہے جو قرآن و سنت کے خلاف ہوں ۔ اعلیٰ عدالتوں میں شرعی اپیلٹ بینچز بھی قائم کیے گئے تاکہ اسلامی فقہ کے تحت فیصلے ممکن بنائے جا سکیں ۔
دفاتر اور عوامی مقامات پر نماز کی پابندی کو یقینی بنانے کے لیے نظامِ صلوٰۃ کے نفاذ کے لیے "نماز کمیٹیاں” تشکیل دی گئیں ۔
آئین کے آرٹیکل 37 (g) کے تحت "عوامی اخلاقیات و حیا” کے قوانین شراب نوشی ، جُوا اور فحاشی کی روک تھام کے لیے موجود ہیں ۔
بعض سرکاری اداروں میں باحیاء لباس اور مرد و زن کی علیحدگی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور لاگو کیا جاتا ہے ۔ پاکستان اسلامی ہجری کیلنڈر کے نفاذ کو یقینی بناتا ہے ، جو گریگورین کیلنڈر کے ساتھ سرکاری طور پر رائج ہے ۔
پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 295 تا 298 نبی کریم ﷺ، قرآنِ مجید اور اسلامی عقائد کی توہین کو فوجداری جرم قرار دیتی ہیں ۔
قیامِ پاکستان سے ہی ملک نے اسلامی اصولوں پر مبنی معیشت قائم کرنے کے لیے آئینی و نظریاتی عزم کا اظہار کیا ہے۔ مختلف ادوارِ حکومت میں سود سے پاک معیشت کے لیے اصلاحات کی گئیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے سود کو غیر اسلامی قرار دیا، اور سود کے خاتمے کے لیے قانون سازی و عدالتی اقدامات جاری ہیں۔
اس ضمن میں اسلامی بینکوں کا قیام، صکوک (اسلامی بانڈز)، اور منافع و نقصان کی بنیاد پر مبنی اسکیمیں جیسے مُرابحہ ، اجارہ ، مشارکہ ، اور مضاربہ متعارف کروائے گئے تاکہ مالیاتی نظام کو شریعت سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔
یہ تمام قوانین اور اقدامات پاکستان کی تاریخ میں ایک جامع اور مسلسل جدوجہد کا حصہ رہے ہیں تاکہ آئینِ پاکستان کو مکمل طور پر اسلامی قانون اور شریعت کے اصولوں کے مطابق تشکیل دیا جائے ۔
پاکستان کے عسکری ، عدالتی ، اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اسلامی قانون کے فریم ورک میں منظم کیے گئے ہیں۔ لہٰذا نہ صرف دستور اور نظام اسلامی ہے بلکہ طرزِ حکومت بھی اسلامی ہے ۔
چنانچہ پاکستان کو دارالایمان تسلیم نہ کرنا نہ صرف سیاسی علمِ الہیات (theology) کی فہم میں کوتاہی ہے بلکہ اسلامی ریاست کی تاریخی اور آئینی حقیقت کو جھٹلانے کے مترادف ہے ۔
اللّٰه تعالیٰ پاکستان کی اسلامی ریاست اور اس کی مسلح افواج کی حفاظت فرمائے۔ آمین