کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ایک ملک جو آگ، دھوئیں اور ملبے میں دفن ہو، وہ دوبارہ جی سکتا ہے؟
” شام” جو کبھی تہذیبوں کا مرکز تھا، پچھلے بارہ سال سے خانہ جنگی، بدحالی، اور تباہی کی تصویر بنا ہوا تھا۔ ہر گلی، ہر عمارت، ہر انسان پر جنگ کے نشان تھے۔ مگر اب، اس اندھیرے میں ایک نیا سورج طلوع ہو رہا ہے، اور وہ سورج ہے "امن”۔
اس نئی روشنی کا آغاز اس وقت ہوا جب شام کے عبوری صدر احمد الشرع نے اپنی تقریر میں کہا: آج سے ایک نئے شام کی تعمیر کا سفر شروع ہو گیا ہے، ہمارا ملک اب صرف امن کا گہوارہ بنے گا۔
یہ صرف الفاظ نہیں تھے، بلکہ ایک تباہ حال قوم کے لیے امید کا پیغام تھا۔ وہ شام، جو دنیا کی نظروں میں مایوسی کی علامت بن چکا تھا، اب ایک نئے باب کی طرف بڑھ رہا ہے۔
احمد الشرع کی کہانی خود ایک دلچسپ موڑ لیے ہوئے ہے۔ وہ ایک وقت میں حیات تحریر الشام نامی تنظیم سے منسلک تھے، جو ماضی میں القاعدہ سے جڑی ہوئی سمجھی جاتی تھی۔
2016 میں انہوں نے اس تنظیم سے تعلق ختم کیا، اور آہستہ آہستہ سیاسی میدان میں قدم رکھا۔ دسمبر 2024 میں، وہ شام کے عبوری صدر بنے۔
ان کی نئی شناخت ایک پرامن اور قومی رہنما کی ہے، جو اب مغربی لباس میں نظر آتے ہیں اور خود کو "تمام شامیوں کا صدر” کہتے ہیں، بغیر کسی فرق کے۔
مگر یہ سب کچھ ایسے ہی نہیں ہو گیا۔ اصل تبدیلی اس وقت آئی جب سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ایک تاریخی ملاقات ہوئی۔
شہزادہ محمد بن سلمان، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، اور احمد الشرع ایک ہی میز پر بیٹھے۔ترک صدر رجب طیب اردوان نے ویڈیو کال کے ذریعے شرکت کی۔
یہ ملاقات صرف 37 منٹ کی تھی، لیکن اس کے اثرات شام کی تاریخ پر برسوں تک رہیں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ، جو پہلے شام سے مکمل لاتعلقی ظاہر کرتے رہے، انہوں نے اچانک اعلان کیا کہ امریکہ شام پر عائد پابندیاں ختم کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ صرف شام کے لیے نہیں، بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے استحکام کے لیے اہم ہے۔
انہوں نے احمد الشرع کو "ایک سخت جان اور قابل شخصیت” کہا، اور واضح کیا کہ انھیں مستقبل میں شام کی قیادت میں صلاحیت نظر آتی ہے۔
یہ وہی امریکہ تھا جس نے احمد الشرع کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر رکھی ہوئی تھی۔
لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔
یہ سفارتی کامیابی صرف الفاظ کی نہیں بلکہ پسِ پردہ سفارتکاری، طاقتور روابط، اور شام میں حقیقی تبدیلی کے آثار کی بنیاد پر ممکن ہوئی۔
پابندیوں کے خاتمے کا مطلب یہ ہے کہ شام اب بین الاقوامی مالیاتی نظام سے دوبارہ جُڑ سکتا ہے۔عالمی امدادی ادارے وہاں پہنچ سکیں گے، غیر ملکی سرمایہ کاری ممکن ہو گی، اور جلاوطنی میں رہنے والے شامیوں کو واپسی کی امید ملے گی۔
دمشق میں ہوٹل کا ایک ملازم، جو پہلے اپنی قوم کو "مشرق وسطیٰ کا شمالی کوریا” کہتا تھا، اب شاید دوبارہ اپنے وطن پر فخر کر سکے گا۔
خاص طور پر حلب پر زور دیا جا رہا ہے۔وہی حلب جو خانہ جنگی میں سب سے زیادہ تباہ ہوا، اب ترقی کا مرکز بننے جا رہا ہے۔
نئی سڑکیں، اسپتال، تعلیمی ادارے، اور روزگار کے منصوبے شروع ہو رہے ہیں۔
احمد الشرع نے کہا کہ "ہم سرمایہ کاروں کو خوش آمدید کہتے ہیں، ہم ہر دروازہ کھولنے کے لیے تیار ہیں۔”
مگر یہ سب کچھ اتنا سادہ نہیں۔ امریکہ کی طرف سے مکمل حمایت کے لیے کچھ شرائط بھی سامنے آئی ہیں۔
ان میں سب سے بڑی شرط ہے کہ شام اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لائے، اور "ابراہام معاہدے” میں شامل ہو، جیسا کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین کر چکے ہیں۔
یہ معاہدہ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے، اور وہ چاہتے ہیں کہ شام بھی اس میں شامل ہو۔
احمد الشرع نے اشارہ دیا ہے کہ وہ "صحیح شرائط” پر اسرائیل کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے پر تیار ہو سکتے ہیں۔
حالانکہ اسرائیل آج بھی شام پر حملے کرتا ہے اور الزام لگاتا ہے کہ اسلحہ دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتا ہے۔یہ نکتہ حساس ضرور ہے، مگر اسی پر شام کے مکمل عالمی انضمام کا دارومدار ہے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ شام کی نئی حکومت کے لیے سب سے بڑا امتحان صرف سیاسی نہیں، عملی ہے۔انہیں غیر ملکی جنگجوؤں کو ملک سے نکالنا ہو گا، عوام کا اعتماد بحال کرنا ہو گا، اور بنیادی سہولیات فراہم کرنی ہوں گی۔
مگر ایک بات واضح ہے — قوم میں امید جاگ چکی ہے۔ شام نے بہت کچھ کھویا ہے۔زندگیاں، گھر، خواب، تاریخ۔مگر اب، جو چیز شام نے دوبارہ پائی ہے، وہ ہے "امید”۔اور شاید کسی قوم کے لیے سب سے بڑی دولت یہی ہوتی ہے۔