جوں جوں وقت گزر رہا ہے اسلامی ممالک قریب آ رہے ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ دشمن کا متحد ہوکر اکیلے اکیلے مسلمان ممالک کو نشانہ بنانا ہے۔اس کی تازہ مثال ایران اور شام پر اسرائیلی حملوں کے بعد، باہم لڑنے والے مسلمان ممالک کے سربراہان کے ایک دوسرے کے حق میں بیانات ہیں۔ اس کی تفصیلات میں آگے چل کر لکھتا ہوں پہلے آپ شام کی تازہ ترین صورتحال جان لیں۔ لیکن ہم بات بشار الاسد کے دور سے شروع کریں گے۔
بشار الاسد کے شام سے فرار اور اسرائیل کو اہم دفاعی و اسٹریٹجک معلومات فراہم کیے جانے کے بعد، اسرائیل نے دو روز قبل شام کے دفاعی ڈھانچے کو آسانی سے نشانہ بنایا۔ اسرائیلی فضائی حملوں میں شام کے فوجی اڈے، راکٹس، تحقیقاتی مراکز اور کیمیائی ہتھیاروں کے ذخائر تباہ کیے گئے۔ اس کے بعد اسرائیل نے شام میں اپنی فوجی موجودگی کو بڑھایا اور گولان کی پہاڑیوں سے نیچے اتر کر 70 کلومیٹر اندر تک مزید علاقے پر قبضہ کرلیا۔
اسرائیل نے زور دیا کہ ترکیے کو بھی شام سے نکل جائے، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ ترکیے کی فوجی موجودگی اسرائیل کے لیے سرحدی خطرہ بن رہی ہے۔ اس بیانیے کو امریکہ اور عالمی برادری کے سامنے بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تاکہ ترکیے کو "جارحانہ قوت” کے طور پر پیش کیا جا سکے۔
دوسری طرف سعودی عرب ، اور سعودی عرب کے ذریعے شام کی امریکی امداد پر بھی اسرائیل کو شدیدتحفظات پیدا ہوئے۔ تاہم گزشتہ چندہفتوں کے دوران صدر ٹرمپ کے جارحانہ موڈ نے نیتن یاہو کو بیک فٹ پر آنے پر مجبور کردیا۔ پھر اچانک کسی سازش کے تحت سویداء کے دروزوں کا مسئلہ اُٹھا کر، اسرائیل نے اب شام پر حملہ کردیا ہے۔
دو روز قبل کافی سنجیدہ صورتحال تھی، ایک طرف احمد الشرع کے وہ ساتھی جو طویل عرصے سے حالتِ جنگ میں تھے، انھیں روکنا اور سنبھالنا اور دوسری طرف بین الاقوامی برادری کے سامنے اسرائیل کے خلاف اپنا مقدمہ رکھنا، ایک مشکل مرحلہ تھا۔ ایسے میں احمد الشرع نے نہایت دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صبر و تحمل سے کام لیا اور کوئی نیا محاذ کھولنے سے گریز کیا۔ الشرع کے ساتھی اس پر بہت اعتماد کرتے ہیں۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے شامی صدر کے ساتھ ٹیلوفونک گفتگو کرتے ہوئے ان کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا اور اسرائیلی حملوں کی مذمت بھی کی۔ دوسری جانب ترکیا کے صدر رجب اردوغان نے بھی احمد الشرع کو اپنی اور ترک قوم کی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ یہ دونوں رابطے بہت حوصلہ افزا رہے۔ خاص طور پر ترکیے کا شام کے ساتھ فوجی تعاون بہت اہم کا حامل ہے۔ اگر ترکیے شام کو فضائی صلاحیت اور ائیر ڈیفنس سسٹم فراہم کردیتا ہے تو یہ شام کے ساتھ ترکیے کا بہت بڑا تعاون ہوگا۔
شام میں رجیم چینج کے بعد، اسرائیل نے شام پر بڑے پیمانے پر بمباریاں کیں۔ ان حملوں کا مقصد شام کی فوجی صلاحیت کو مکمل طور پر ختم کرنا تھا، اور اسرائیلی ذرائع کے مطابق شام کی 70 سے 80 فیصد فوجی طاقت اور موجود اسلحہ تباہ کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اسد انتظامیہ اسرائیل کی انٹیلی جنس کو خفیہ معلومات فراہم کرتی ہے جس سے اسرائیل فائدہ اُٹھاتا ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے کےدوران، خطے میں موجود کرد دہشت گرد گروہوں، دروز ملیشیاؤں، اور اسد کے حامی عناصر اور نصیری فرقے کو متحرک کیا گیا۔ان گروہوں نے مختلف علاقوں پر قبضہ کر کے شام کو عملی طور پر تقسیم کرنے کی کوشش کی بھی کی۔ دروز گروہوں کو اسرائیل کی حمایت کھلے عام حاصل تھی اور اسرائیل نے ان کے ذریعے جنوبی شام میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے۔
اگلے مرحلے میں، یورپی ممالک اور روس سمیت کچھ دیگر ممالک کو ساتھ ملاکر ایک بین الاقوامی اتحاد تشکیل دینے کی کوشش کی گئی تاکہ ترکیے کے خلاف "توسیع پسندی” کے نعرے کے تحت کارروائی کی جا سکے۔ اس اتحاد کا مقصد ترکیے کو عالمی سطح پر تنہا کرنا اور شام کی پشت سے ہٹانا تھا۔ ایسے میں ایران نے قدرے مثبت کردار ادا کرتے ہوئے ایسی کسی گیم کا فی الحال حصہ بننے سے انکار کردیا۔
ایک اور اچھی ڈیولپمنٹ یہ بھی ہوئی کہ ایران پر اسرائیلی حملوں کے دوران صدر اردوغان نے کھل کر ایران کی حمایت کا اعلان کیا اور دوسری طرف ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقجی نے شام پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے موجودہ شامی حکومت کی مضبوطی اور استحکام کی خواہش کا اظہار کیا، یہ مثبت پیش رفت ہے، ایسی سوچ اور حکمت عملی کی اسلامی ممالک کو ضرورت ہے۔
شام کی تقسیم اور ایران پر حملہ، دونوں کا مقصد خطے میں اسرائیل کو طاقت ور ترین بنانا ہے۔ لیکن تاحال شام اور ایران کی موجودہ قیادت نے دانش مندی سے کام لیتے ہوئےکسی جارحانہ پالیسی سے گریز کیا ہے۔ ایسے میں ترکیے اور سعودی عرب نے بھی دونوں ملکوں کو درست سمت چلایا ہے۔ لیکن ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے، اسلامی ملکوں کا مخلصانہ اتحاد باقی ہے، مشترکہ تحفظات کے لیے طویل اسٹریجک تعاون کرنا باقی ہے۔ یقیناً بہت کچھ باقی ہے اور ضروری ہے۔
اب شام میں کیا ہوگا؟ احمد الشرع نے سویداء میں اپنا فوجی کردار کم کر کے مقامی سیاست، علاقائی قبائل اور عوام کو اس میں شامل کرنے کی مہم چلادی ہے۔اور اس کام کو شامی وحدت کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ اس کا فوری نتیجہ یہ نکلا ہے کہ صیہونی عناصر کی چالیں غیر مؤثر ثابت ہوگئی ہیں۔ اور اسرائیل فی الحال اس معاملے سے پیچھے ہٹ گیا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ دائمی حل نہیں ہے۔
شامی وحدت اور اس کی تمام اکائیوں کو شامل کرنے کا پورا عمل کسی بھی بیرونی مداخلت کے بغیر، خالصتاً اندرونی سوچ و فکر اور قومی فیصلے کے تحت مکمل کیا گیا ہے۔ عرب قبائل، جذبہ حب الوطنی کے تحت سویداء جیسے اہم علاقے کا کنٹرول حاصل کرنے کے قریب تر ہیں۔اسرائیل کی آخری چال کو عرب بدوی قبائل کی مدد سے بے بس کر دیا گیا ہے۔
سعودی عرب ہمیشہ کی طرح اس سلسلے میں ایک خیر خواہ اور متعاون بڑے بھائی کا کردار ادا کر رہا ہے لیکن ترکیے مشرقی شام میں حالات کی مسلسل فوجی اور سیاسی نگرانی کر رہا ہے حتی کہ جب بدوی قبائل کو سویداء کی طرف حرکت کرنے کا سگنل دیا گیا تو اس دوران کرد اور دیگر گرہووں کی غیرمتوقع حرکات پر گہری نظر رکھنے کا عمل ترک ڈرونز نے کیا۔ ترکیے، دمشق کی راہداری پر کنٹرول سے متعلق حکمت عملی کو فعال انداز میں جاری رکھے ہوئے ہے۔
بہر کیف ! شام کی نئی حقیقت ایک دن میں نہیں بنی۔ نئی فوج ایک دن میں قائم نہیں ہوئی۔ یہ صبر، تبدیلی، ارتقاء اور گہری اندرونی محنت کا نتیجہ ہے۔ شام کی فوج اور قبائل آج کرائے کے فوجیوں سے کہیں زیادہ سرعت کے ساتھ حرکت میں آتے ہیں اور بلند حوصلے کے ساتھ لڑتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے ہزاروں شہداء کی قربانیاں دے چکے ہیں مگر ایک قدم پیچھے نہیں ہٹے۔نیا شام اپنی اندرونی قوت اور طاقت سے ابھر رہا ہے۔
شام کو مکمل طور پر کھڑے ہونے کے لیے لمبے صبر اور حکمت سے کام لینا ہوگا، دیگر بڑے اسلامی ممالک کو شام کی سالمیت کو لاحق خطرات سے نمٹنے میں اس کی مکمل مدد کرنا ہوگی۔ خطے میں موجود اسرائیل کی جارحیت سے فلسطین کے ساتھ ساتھ شام کو بھی بچانا ہوگا۔ خاص طور پر مصر کی افواج اور ترکیے کی فضائیہ اس سلسلے میں شام کی مدد کرسکتے ہیں۔ جبکہ مالی امداد، سفارتی رسائی اور تعمیراتی کاموں میں سعودی تعاون سے بڑھ کر کچھ ممکن نہیں۔ عالم اسلام کو مزید اتحاد کی ضرورت ہے، مزید قریب آنے کی ضرورت ہے۔