دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی کے اعلان نے وقتی طور پر راحت کا احساس ضرور پیدا کیا ہے، مگر اس کے پسِ منظر میں چھپی بے اعتمادی، شدت پسندی اور سیاسی مفادات کی گہری خلیج اب بھی برقرار ہے۔ سرحد کے دونوں جانب یہ سوال گونج رہا ہے کہ کیا یہ جنگ بندی امن کا آغاز ہے، یا محض اگلی جھڑپ سے پہلے کا سکوت؟
پاک افغان تعلقات ہمیشہ سے ایک پیچیدہ تاریخ کا امتزاج رہے ہیں۔ ڈیورنڈ لائن، جو کبھی محض ایک سرحدی لکیر تھی، اب اختلاف، شک اور ماضی کی تلخیوں کی علامت بن چکی ہے۔ گزشتہ ہفتے ہونے والی جھڑپوں میں درجنوں افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان بدگمانی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے پر شدت پسندوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کرتے ہیں، جبکہ ان تنازعات کا سب سے بڑا نقصان عام عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
اسلام آباد کا مؤقف یہ ہے کہ افغان سرزمین سے ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) اور گل بہادر گروپ جیسے عناصر پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ پاکستانی حکام کے مطابق ان تنظیموں نے گزشتہ چند ماہ میں درجنوں حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ دوسری جانب طالبان حکومت ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں پاکستان کی سیاسی حکمتِ عملی کا حصہ قرار دیتی ہے۔ کابل کے نزدیک یہ بیانیہ اس کے اقتدار کو کمزور کرنے کے لیے گھڑا گیا ہے۔
دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں پاکستانی وفد کی قیادت وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے کی، جبکہ افغان وفد کی سربراہی قائم مقام وزیرِ دفاع ملا یعقوب نے انجام دی۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان نے ایک ’’واحد نکاتی ایجنڈا‘‘ پیش کیا — دہشت گرد تنظیموں اور ان کے محفوظ ٹھکانوں کا فوری خاتمہ۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق فریقین ’’مکمل اور بامعنی جنگ بندی‘‘ پر متفق ہوئے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ مفاہمت پائیدار امن کی صورت اختیار کرے گی، یا ایک عارضی وقفہ ثابت ہوگی؟
قطر اور ترکی کی ثالثی میں ہونے والی اس بات چیت کے بعد اب اگلا اجلاس استنبول میں 25 اکتوبر کو متوقع ہے، جہاں اس جنگ بندی کے عملی نفاذ پر بات ہوگی۔ مگر ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی اکثر محض وقفہ ثابت ہوتی ہے — وہ وقفہ جو اگلی جھڑپ کے لیے سانس لینے کا موقع دیتا ہے۔ جب تک دونوں ممالک کے درمیان بنیادی مسائل، یعنی سرحدی نگرانی، شدت پسندوں کی پناہ گاہیں، اور اعتماد سازی پر سنجیدہ پیش رفت نہیں ہوتی، کوئی بھی جنگ بندی دیرپا نہیں ہو سکتی۔
اس بار کی جھڑپیں خاص طور پر سنگین تھیں۔ پاکستان نے افغان فورسز کی جانب سے ’’بلا اشتعال فائرنگ‘‘ کے جواب میں بھرپور کارروائی کی، جس کے نتیجے میں افغان چوکیوں کو نشانہ بنایا گیا اور درجنوں جنگجو اور اہلکار مارے گئے۔ افغان حکومت نے اس کارروائی کو اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا۔ یوں الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ مزید شدت اختیار کر گیا ہے، جو نہ صرف دونوں ممالک بلکہ خطے کے استحکام کے لیے بھی خطرناک اشارہ ہے۔
طالبان حکومت اس وقت دو محاذوں پر دباؤ کا شکار ہے — ایک طرف داخلی چیلنجز ہیں، جہاں مختلف گروہوں کے مابین اتحاد برقرار رکھنا ایک مشکل کام بن چکا ہے، دوسری طرف بیرونی دباؤ ہے، جو اقتصادی بحران اور سفارتی تنہائی کی شکل میں سامنے آ رہا ہے۔ اگر طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہیں تو انہیں اپنے اندرونی دھڑوں میں بغاوت کا سامنا ہو سکتا ہے۔ لیکن پاکستان کے لیے یہ مسئلہ اب برداشت سے باہر ہو چکا ہے۔ بار بار ہونے والے دہشت گرد حملوں نے عوامی غصے کو بھڑکا دیا ہے اور فوجی قیادت پر فیصلہ کن اقدام کا دباؤ بڑھا دیا ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ دوحہ میں ہونے والی جنگ بندی اصل میں ایک وقتی حکمتِ عملی ہے — ایک سیاسی وقفہ، جس کے دوران دونوں ممالک اپنی پوزیشن ازسرِنو طے کر رہے ہیں۔ پاکستان کو اپنی انسدادِ دہشت گردی کی پالیسی پر ازسرِنو غور کرنے کا موقع مل رہا ہے، جبکہ طالبان حکومت اپنے اندرونی اختلافات کو سنبھالنے کی کوشش میں ہے۔ اگر استنبول کے مذاکرات دانشمندی سے آگے بڑھائے جائیں تو یہ کسی دیرپا حل کی بنیاد بن سکتے ہیں۔
بین الاقوامی تناظر میں بھی یہ پیش رفت اہم ہے۔ قطر اور ترکی کی ثالثی اس بات کا ثبوت ہے کہ اب جنوبی ایشیا کے تنازعات کا حل خطے کے اندر ہی تلاش کیا جا رہا ہے۔ چین، امریکہ، ایران اور سعودی عرب سب اس پیش رفت کو غور سے دیکھ رہے ہیں، کیونکہ افغانستان میں استحکام نہ صرف علاقائی سلامتی بلکہ عالمی سفارتی توازن کے لیے بھی اہمیت رکھتا ہے۔
اب اصل امتحان وعدوں کو عملی شکل دینے کا ہے۔ پاکستان کو طالبان حکومت سے محض بیانات نہیں بلکہ قابلِ تصدیق اقدامات درکار ہیں، تاکہ دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ یقینی بنایا جا سکے۔ افغانستان کو بھی یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ایک ذمہ دار ریاست ہے جو اپنی سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیتی۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ وقتی ثالثی کے بجائے طویل المدتی شراکت داری کے ذریعے اس خطے کی پائیدار امن کوششوں میں شامل ہو۔
امن صرف گولیوں کے رکنے کا نام نہیں، بلکہ اعتماد کے جنم لینے کا عمل ہے۔ اور بدقسمتی سے، یہی وہ چیز ہے جو اسلام آباد اور کابل کے درمیان اب تک پروان نہیں چڑھ سکی۔ دوحہ کی جنگ بندی اگرچہ وقتی سکون کا باعث بنی ہے، مگر جب تک خلوص، شفافیت اور ذمہ داری کے ساتھ عملدرآمد نہیں ہوتا، یہ محض تاریخ کے ان عارضی وقفوں میں سے ایک رہے گی جن کے بعد دھوئیں کے بادل پھر اُٹھتے ہیں۔
سرحد کے دونوں جانب عوام — تاجر، کسان، قبائلی خاندان اور مہاجرین — ایک بار پھر امید کے ساتھ انتظار کر رہے ہیں کہ شاید اس بار، بندوقیں کچھ دیر کے لیے خاموش ہی رہیں۔
