عرفان الحق صدیقی، جو اپنے قلمی نام عرفان صدیقی سے زیادہ معروف ہیں، راولپنڈی (پنجاب) پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں سے حاصل کی۔ بعد ازاں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی، لاہور سے اردو ادب میں ماسٹرز اور تعلیم میں بیچلر (B.Ed) کی ڈگری حاصل کی۔ بی ایڈ کے امتحان میں وہ پنجاب یونیورسٹی میں اوّل آئے اورانہیں گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔
عرفان صدیقی نے اپنے پیشہ ورانہ کیریئر کا آغاز شعبۂ تعلیم سے کیا، جہاں وہ وفاقی تعلیمی اداروں میں مختلف سطحوں پر تدریسی فرائض سرانجام دیتے رہے۔ پچیس سالہ شاندار تدریسی خدمات کے بعد انہوں نے 1988 میں 25 سال کی سرکاری ملازمت کے بعد رضاکارانہ طور پر ریٹائرمنٹ اختیار کر لی تھی۔ ان میں سے آخری 18 سال انہوں نے ایف جی سر سید کالج، راولپنڈی میں تدریس کی، جو ملک کے ممتاز تعلیمی اداروں میں شمار ہوتا ہے۔ بعد ازاں وہ دو سال کے لیے اوورسیز پاکستانی فاؤنڈیشن (OPF) میں ڈائریکٹر ایجوکیشن کے طور پر بھی خدمات انجام دیتے رہے۔
عرفان صدیقی نے صحافت کے میدان میں قدم معروف صحافی مجیب الرحمان شامی کے زیرِ ادارت ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ اور ماہنامہ ’’قومی ڈائجسٹ‘‘ سے رکھا۔ 1990 میں وہ معروف سیاسی ہفت روزہ ’’تکبیر‘‘ سے وابستہ ہوئے جو نامور صحافی محمد صلاح الدین شہید کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ محمد صلاح الدین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ان سے بہتر انٹرویو کرنے کی صلاحیت رکھنے والا کوئی شخص نہیں۔
اسی دوران عرفان صدیقی نے 1997 کے آخر میں روزنامہ جنگ میں ’’نقشِ خیال‘‘ کے عنوان سے کالم لکھنے شروع کیے۔
جنوری 1998 میں وہ صدرِ پاکستان جناب محمد رفیق تارڑ کے پریس سیکریٹری مقرر ہوئے، جس کے باعث ان کا صحافتی سلسلہ تقریباً ساڑھے تین سال کے لیے رُک گیا۔ جون 2001 میں ایوانِ صدر سے سبکدوش ہونے کے بعد انہوں نے روزنامہ پاکستان اسلام آباد میں بطور ریذیڈنٹ ایڈیٹر خدمات انجام دیں۔ بعد ازاں ستمبر 2001 میں وہ روزنامہ نوائے وقت سے بطور مستقل کالم نگار وابستہ ہوئے۔ اگست 2008 میں وہ دوبارہ جنگ گروپ سے منسلک ہوئے، جہاں وہ مسلسل سیاسی و سماجی موضوعات پر لکھتے رہے۔ وہ مختلف ٹی وی چینلز کے سیاسی مباحثوں میں بھی باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے ہیں۔
صحافت و ادب کے میدان میں نمایاں خدمات کے اعتراف کے طور پر صدرِ اسلامی جمہوریہ پاکستان نے انہیں ہلالِ امتیاز کے اعزاز سے نوازا۔ حکومت پاکستان نے ان کی علمی و ادبی خدمات پر حال ہی میں انہیں نشان امتیاز دینے کا بھی اعلان کیا۔ اس کے علاوہ انہیں قومی و بین الاقوامی سطح پر بھی متعدد اعزازات حاصل ہوئے۔
عرفان صدیقی کا ریڈیو پاکستان سے بھی گہرا تعلق رہا۔ انہوں نے بطور لکھاری، فیچر نگار اور ڈرامہ نویس کے طور پر سو سے زائد ریڈیو ڈرامے تحریر کیے، جنہیں عوام و خواص میں بے حد پذیرائی ملی۔ ممتاز اردو ڈرامہ نگاروں اشفاق احمد اور مرزا ادیب نے بھی ان کے کام کو سراہا۔
انہوں نے نصف درجن سے زائد کتابیں تصنیف کیں، جن میں’’نقشِ خیال‘‘، ’’بھید بھری آواز‘‘، ’’دائروں میں سفر‘‘، ’’جادو نگری‘‘ اور ’’مکہ مدینہ‘‘، "کالم کہانی”, "قلم کو ہتھکڑی”، "قافلہ سخت جاں”، "سائفر سے فائنل کال تک” کے علاوہ شاعری کا مجموعہ’گریز پا موسموں کی خوشبو’ شائع ہو چکے ہیں۔
اپنے متنوع کیریئر کے دوران انہوں نے متعدد ممالک کا دورہ کیا، جن میں امریکہ، برطانیہ، ترکی، سعودی عرب، مراکش، متحدہ عرب امارات، جاپان، سپین، بیلجیم، افغانستان، ناروے، ڈنمارک، سویٹزرلینڈ اور تھائی لینڈ شامل ہیں۔ انہیں حکومتِ امریکہ اور حکومتِ ایران کی جانب سے سرکاری طور پر دورے کی دعوت بھی ملی۔
انہوں نے پاکستان اور بیرونِ ملک سیاست، صحافت، تعلیم اور سماجی موضوعات پر لیکچر بھی دیے۔
27 جنوری 2014 کو وزیرِ اعظم محمد نواز شریف نے انہیں قومی امور پر خصوصی معاون مقرر کیا، جنہیں وفاقی وزیر کا درجہ حاصل تھا۔ انہیں وزیرِ اعظم کی جانب سے تشکیل دی گئی کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا جس کا مقصد الیکٹرانک میڈیا کے لیے ضابطۂ اخلاق تیار کرنا تھا۔ عرفان صدیقی نے پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن (PBA) کے تعاون سے اس تاریخی کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا، جو الیکٹرانک میڈیا کی 13 سالہ تاریخ میں پہلی بار ممکن ہوا۔
5 جنوری 2016 کو انہیں وزیرِ اعظم کا مشیر برائے قومی تاریخ و ادبی ورثہ مقرر کیا گیا اور اسی نام سے ایک نئی وزارت قائم کی گئی۔ ان کی اس تقرری کو ادبی، علمی اور فکری حلقوں نے زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔
مرحوم سابق صدر رفیق تارڑ کے پریس سیکریٹری،سابق وزیراعظم نواز شریف کے اسپیچ رائٹر، سینیٹ میں (ن) لیگ کے پارلیمانی پارٹی لیڈر، سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین، مسلم لیگ (ن) کی منشور کمیٹی کے سربراہ بھی رہے۔ وہ طالبان سے مزاکرات کے لیے قائم حکومتی کمیٹی کے رکن بھی رہے۔
عرفان صدیقی کی اظہار رائے اور شخصی آزادیوں کی توانا آواز اور موثر نقطہ نظر رکھتے تھے عرفان صدیقی کی ولادت 19 دسمبر 1943 کو راولپنڈی کے نواحی علاقے چیک بیلی کے قریب ڈھوک بدھال میں ہوئی تھی۔ ان کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ جبکہ ان کے ہزاروں شاگرد قومی اور بین الاقوامی سطح پر نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وہ پیر 10 نومبر کی نصف شب دار فانی سے کوچ کر گئے
