ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں مسلمان حج کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ آتے ہیں۔ اگرچہ ان سب کا عقیدہ ایک ہوتا ہے، مگر زبانیں مختلف۔ ترکی، اردو، سواحلی، انڈونیشی اور دیگر زبانیں بولنے والے حجاج کے لیے زبان کی رکاوٹ ایک بڑا چیلنج بن جاتی ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب نوجوان سعودی رضاکار میدان میں آتے ہیں اور ترجمہ، رہنمائی اور انسانی ہمدردی کے ذریعے حاجیوں کے لیے حج کا سفر آسان بناتے ہیں۔
دیما ابراہیم ان ہی میں سے ایک ہیں، جنہوں نے اپنی خدمات کا آغاز طبی امداد کی ٹیم سے کیا، مگر غیر متوقع صورتحال کے باعث وہ حجاج کی رہنمائی کی ٹیم میں شامل ہو گئیں۔ چونکہ دیما دو زبانیں جانتی تھیں، اس لیے ان کا کردار نہایت اہم ہوگیا۔ وہ ویڈیو کال کے ذریعے بہرے اور گونگے حجاج کی بھی مدد کرتی رہیں اور سب سے جذباتی لمحہ وہ تھا جب انہوں نے ایک معمر خاتون کو ان کے بچھڑے ہوئے خاندان سے ملوایا۔
دیما کہتی ہیں کہ یہ سب کچھ میں نے صرف اللہ سے اجر اور دعاؤں کے لیے کیا۔
اسی طرح 23 سالہ سعد الحربی، جنہیں انگریزی زبان پر عبور حاصل ہے، اپنے دوست کے کہنے پر رضاکارانہ خدمت کے لیے آگے آئے۔ ان کے بقول، زیادہ تر حجاج راستوں سے متعلق سوالات کرتے تھے، جیسے عرفات کیسے جانا ہے یا رمی کہاں کرنی ہے۔ حج کے اختتام پر جب پورے گروپ نے ان کا شکریہ ادا کیا تو وہ لمحہ سعد کے دل میں ہمیشہ کے لیے نقش ہوگیا۔
ترکی زبان پر عبور رکھنے والی 24 سالہ ماہا الاحمری نے مزدلفہ میں بزرگ ترک حجاج کی مدد کی۔ ’’جب انہوں نے میری زبان سنی تو فوری طور پر ان کے چہروں پر سکون آ گیا۔ ایک بزرگ خاتون نے تو خوشی سے میرا ہاتھ چوم لیا۔‘‘
سعودی حکومت نے حجاج کی سہولت کے لیے کثیر لسانی سائن بورڈز، ترجمے والی ایپس اور تربیت یافتہ عملہ فراہم کیا ہے، مگر انسانی جذبہ اور براہِ راست رابطہ وہ چیز ہے جو دلوں کو چھو جاتا ہے۔ دیما کے مطابق بزرگ حجاج اکثر یادداشت کی کمزوری، سماعت کے مسائل اور الجھن کا شکار ہوتے ہیں، اور ایسے میں رضاکاروں کا کردار نہایت اہم ہو جاتا ہے۔
منیٰ میں تعینات 28 سالہ فارس التُرکی نے بتایا کہ انہیں ایک وسطی ایشیائی حاجی کی بیماری سمجھنے کے لیے گوگل ٹرانسلیٹ کا سہارا لینا پڑا۔ ’’اگرچہ ترجمہ مکمل نہیں تھا، مگر ہم نے مل کر مسئلہ حل کر لیا۔‘
یہ رضاکار صرف الفاظ نہیں، بلکہ جذبات کا ترجمہ کرتے ہیں۔ ان کی خاموش خدمات، ایک پرسکون آواز، صبر و ہمدردی کا لمس حجاج کے دلوں میں ایک ناقابلِ فراموش یاد چھوڑ جاتا ہے۔ حج مکمل ہونے کے بعد شاید حجاج مقامات یا عمارتیں بھول جائیں، مگر وہ نوجوان سعودی رضاکار انہیں ضرور یاد رہتا ہے جس نے ان کی زبان سمجھی، ان کا ہاتھ تھاما، اور انہیں یہ احساس دلایا کہ وہ اکیلے نہیں۔