منی کی خیمہ بستی ان دنوں روحانیت کا ایک دلکش منظر پیش کررہی تھی۔ لاکھوں عازمین حج کے قدموں کی چاپ اور لبیک اللھم لبیک کی گونج نے اس سرزمین کو عبادت کے گہرے سکوت میں لپیٹ رکھا تھا۔ ہر حاجی کی آنکھوں میں ایک الگ روشنی تھی، کوئی برسوں کی دعاؤں کے بعد آیا تھا، تو کوئی جوانی کی امنگوں کے ساتھ۔ ان میں سب سے خوبصورت بات یہ تھی کہ یہاں نہ رنگ دیکھا جا رہا تھا، نہ نسل، نہ عمر، نہ زبان یہاں صرف ایک بات مشترک تھی ایمان۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والے 73 سالہ معین الدین کے چہرے پر سکون اور عاجزی کی جھلک تھی۔ کئی دہائیوں سے دل میں بسائے ہوئے اس خواب کو لے کر وہ منی پہنچے تھے۔ ہاتھ میں چھڑی، کمر جھکی ہوئی مگر دل میں یقین کامل۔ وہ بولےمیری والدہ کی مغفرت کے لیے، میں نے اللہ سے ہمیشہ یہی دعا مانگی کہ مجھے حج کی طاقت عطا فرمائے۔
معین الدین کے عقب میں 22 سالہ مصطفیٰ کھڑا تھا جو ڈنمارک سے آیا تھا۔ وہ جدید کیمروں اور ڈیجیٹل نقشے کے ذریعے مناسک کو محفوظ کر رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ٹیکنالوجی تھی، لیکن دل میں وہی جذبہ جو معین الدین کے پاس تھا۔یہاں بزرگوں کو دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ حج جسم سے نہیں، جذبے سے ہوتا ہے۔” مصطفیٰ کی یہ بات عمر کی دیواریں گرا گئی۔
ایک لمحہ آیا جب مصطفیٰ راستہ تلاش کر رہا تھا اور معین الدین نے نرمی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ یہ ایک ایسا لمحہ تھا جس میں نہ زبان کی ضرورت تھی، نہ وضاحت کی، یہ عقیدے اور انسانیت کی خاموش زبان تھی۔
خیمہ بستی میں کچھ حاجی جوتوں کے تسمے باندھ رہے تھے، کچھ سمارٹ فون پر نمازوں کے اوقات دیکھ رہے تھے، کچھ ورچوئل گائیڈ سے رہنمائی لے رہے تھے۔ سفید احرام میں ملبوس یہ چہرے، خواہ بوڑھے ہوں یا جوان، ایک ہی مقدس راستے پر قدم بہ قدم چل رہے تھے۔
بزرگ عازمین میں کئی ایسے تھے جو وہیل چیئر یا واکر پر تھے، جنہیں ان کے پیارے سہارا دے رہے تھے۔ خاموشی سے بہتی دعاؤں میں ایک درد چھپا تھا اور ایک امید۔ نوجوان حاجی جہاں ورچوئل ترجمہ اور نقشوں سے فائدہ اٹھا رہے تھے، وہیں کئی ایسے بھی تھے جو گم سُم ہو کر دعاؤں میں مشغول تھے۔
رمی جمرات (شیطان کو کنکریاں مارنے) کے موقع پر ایک نوجوان نے آگے بڑھ کر ایک بزرگ کا بازو تھاما۔ یہ ایک معمولی عمل تھا، لیکن اس میں احترام، محبت اور ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتا ہوا عقیدہ چھپا تھا۔
طواف الوداع کے موقع پر وہیل چیئرز کے لیے سہولت دی گئی، کوئی نسلی تفریق نہ تھی، نہ کسی ملک کی برتری،ہر طرف بس ایک ہی صدا تھی”اللھم لبیک”
یہ حج 2025 کی کہانی ہے۔ ایک ایسی داستان جس میں وقت کی قید نہیں، سرحدوں کی حد نہیں، اور نسلوں کے فرق کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہاں سب حاجی تھے اللہ کے مہمان۔