حرمین شریفین کے توسیعی منصوبوں کے ماہر آرکیٹیکچر ڈاکٹر محمد کمال اسماعیل مصر کی تاریخ کے سب سے قابل اور ہونہار آرکیٹیکچر تھے۔ انھیں یہ اعزاز بھی حاصل رہا ہے کہ وہ مصر کے سب سے کم عمر شخص تھے جنھوں نے ہائی اسکول سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔
پھر رائل اسکول آف انجینئرنگ کے سب سے کم عمر طالب علم بنے۔ جب انھوں نے وہاں سے گریجویٹ کی ڈگری لی تب بھی وہ سب سے کم عمر طالب علم تھے۔
بعد ازاں انھیں سکالر شپ پر یورپ سے اسلامک آرکیٹیکچر میں ڈاکٹریٹ کے لیے بھیجا گیا جہاں انھوں نے انجیئنرینگ اور اس سے متعلقہ آرکیٹیکچر کے تین سبجیکٹس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔مصر کی تاریخ میں یہ آج بھی سب سے بڑا اعزاز اور ریکارڈ ہے۔
ان کا سب سے بڑا اعزاز یہ تھا کہ انھیں حرمین شریفین (مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ) کے دوسرے توسیعی پروجیکٹس کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کی ذمہ داری سونپی گئی۔
اس بڑے آپریشن کی نگرانی کے لیے سعودی فرمانروا شاہ فہد مرحوم اور بن لادن گروپ کی سفارشات کے بعد یہ افواہ پھیل گئی کہ ڈاکٹر کمال نے ان منصوبوں کی کوئی اجرت نہیں لی، لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔
انھوں نے حرمین شریفین میں اپنے کیے ہوئے کاموں اور خدمات کے تمام واجبات وصول کیے۔ تاہم انھوں نے جس مہارت اور خوبصورتی سے حرمین شریفین کے توسیعی منصوبوں میں سعودی حکام کے ساتھ تعاون کیا اور ان منصوبوں کی تکمیل میں پیش پیش رہے، اس پر وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔
آج بھی حرمین شریفین کی اگلی توسیعات میں ڈاکٹر کمال کے ڈیزائن کیے گئے آرکیٹیکچر سے مدد لی جاتی ہے اور انہی خطوط پر نئی توسیعات کو آگے بڑھایا جاتا ہے۔
انھوں نے لگ بھگ 100 سال عمر پائی۔ وہ 1908 میں پیدا ہوئے اور 2008 میں فوت ہوئے۔
انھوں نے 44 سال کی عمر میں شادی کی اور ان کی بیوی نے بیٹے کو جنم دیا اور زچگی کے بعد فوت ہو گئی۔ کہا جاتا ہے اس کے بعد وہ مرتے دم تک عبادت الٰہی میں مصروف رہے اور دوسری شادی نہیں کی۔