مدینہ منورہ میں واقع مسجدِ نبویؐ، جو روحانیت، تاریخ اور عقیدت کا عظیم مرکز ہے، اپنے 100 دیدہ زیب دروازوں کی بدولت ایک اور پہچان رکھتی ہے۔ یہ دروازے نہ صرف داخلے کا ذریعہ ہیں، بلکہ وہ فنی شاہکار بھی ہیں جو اسلامی تہذیب، محبت اور مہمان نوازی کا پیغام دیتے ہیں۔
ہر دروازہ آنے والے کو گویا خوش آمدید کہتا ہے، بغیر یہ پوچھے کہ وہ کہاں سے آیا ہے، کس لباس میں ہے یا کون سی زبان بولتا ہے۔ ان دروازوں کی کشادگی اور حسن، اسلام کے پیغامِ امن، وسعتِ قلبی اور برابری کی عملی تصویر پیش کرتے ہیں۔
ان دروازوں کی تیاری میں صرف سعودی عرب ہی نہیں، بلکہ دنیا بھر کی کاریگری شامل رہی۔ لکڑی امریکہ سے منگوائی گئی، جو پانچ ماہ تک اسپین کے شہر بارسلونا میں مخصوص اوونز میں خشک کی گئی۔ فرانس میں تانبے کو چمکایا گیا، پھر سونے کی ملمع کاری ہوئی۔ آخرکار ہر دروازہ روایتی اسلامی طریقے سے، کیل کے بغیر، جوڑ کر تیار کیا گیا یہ فنونِ لطیفہ اور جدید ٹیکنالوجی کا حیرت انگیز امتزاج ہے۔
یہ دروازے خاص طور پر سابق خادمِ حرمین شریفین شاہ فہد بن عبدالعزیز کے دور میں کی گئی تاریخی توسیع کے دوران نصب کیے گئے تھے۔ اس توسیع میں مسجد کے تین اطراف شمال، مشرق اور مغرب میں سات مرکزی داخلی راستے شامل کیے گئے۔ ہر مرکزی داخلی مقام پر سات بڑے دروازے نصب ہیں، جو ایک ساتھ کھلتے اور بند ہوتے ہیں، مگر ان کا وزن تقریباً 1.25 ٹن ہونے کے باوجود صرف ایک ہاتھ سے کھولا جا سکتا ہے۔
ہر دروازہ 3 میٹر چوڑا، 6 میٹر بلند اور 13 سینٹی میٹر موٹا ہے۔ اس میں 1,500 سے زائد تانبے کی پلیٹیں نصب ہیں، جن پر سونے کی ملمع کاری کے ساتھ "محمد، رسول اللہ ﷺ” کا خوبصورت دائرہ طرز میں کندہ ہے۔ ان میں استعمال ہونے والی ٹیک لکڑی کی مجموعی مقدار 1,600 مکعب میٹر سے زائد رہی جو اس عظیم منصوبے کی وسعت اور باریکی کو ظاہر کرتی ہے۔
مسجدِ نبویؐ کے یہ 100 دروازے اسلامی فنِ تعمیر کے سنہری دور کی یاد تازہ کرتے ہیں، جبکہ جدید تقاضوں کو بھی پورا کرتے ہیں۔ ان میں ماضی کی خوشبو، آج کی چمک اور مستقبل کا فخر سمٹ آیا ہے۔ ہر دروازہ اپنی جگہ ایک داستان ہے — محبت، عقیدت، فن، اور ایمان کی۔
اگر یہ دروازے بول سکتے، تو شاید وہ صدیوں کے سجدوں، دعاؤں اور آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں کی گواہی دیتے۔ لیکن ان کا خاموش جاہ و جلال خود ایک زبان ہےجو ہر زائر کے دل پر ہمیشہ کے لیے نقش چھوڑ دیتا ہے۔