امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی نئی حکومت کی تشکیل میں مصروف ہیں۔ وہ اپنے وزراء اور کابینہ کے نام اور ان کے عہدوں کی تفصیلات اپنے ایکس اکاؤنٹ پر شئیر کر رہے ہیں۔ ان کے نامزد کردہ ناموں کو دیکھ کر نئی امریکی حکومت کے خد و خال اور ترجیحات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
وقت سے پہلے کچھ بھی کہنا حتمی نہیں ہوتا تاہم شخصیات کے ماضی اور ان کے رجحانات سے پتہ ضرور چل جاتا ہے کہ وہ آنے والے کل میں کیا کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ کے نو منتخب صدر نے جن اہم ناموں کو بطور کابینہ ممبر اپنے ایکس اکاؤنٹ پر نشر کیا ہے، ان ناموں میں پاکستان کے لیے کچھ نہیں ہے۔
صدر ٹرمپ نے سینیٹر مارکو روبیو کو اپنے آنے والی حکومت میں سیکرٹری خارجہ کے لیے نامزد کیا ہے۔ روبیو قدرے جارح مزاج آدمی ہیں۔ وہ ماضی میں ٹرمپ کے خلاف بھی رہ چکے ہیں۔ روبیو، اکثر اسرائیل اور بھارت کے حامی رہے ہیں اور پاکستان سے ناخوش۔ انھوں نے اسی سال امریکی سینیٹ میں ایک بل بھی پیش کیا تھا جس میں بھارت کے ساتھ دفاعی تعاون بڑھانے کی تجاویز دی گئی تھیں۔
صدر ٹرمپ نے سینیٹر مائیک والٹز کو سیکرٹری برائے نیشنل سیکیورٹی نامزد کیا ہے۔ والٹز ماضی میں پاکستان، افغانستان اور بھارت میں کام کرچکے ہیں۔ وہ پاکستان کی مذہبی جماعتوں خصوصاً جماعت الدعوۃ یا لشکر طیبہ اور دیگر تنظیموں سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ ماضی میں ان جماعتوں کے حوالے سے پاکستان کی حکومتوں پر دباؤ ڈالنے کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ وہ ایسے آدمی ہیں جو پاکستان کے تمام زمینی حقائق سے نہ صرف بخوبی آگاہ ہیں بلکہ بعض امور کے چشم دید گواہ بھی ہیں۔
پاکستان نے ہمیشہ سینیٹر والٹز کے الزامات کی تردید کی ہے۔
صدر ٹرمپ نے سابق کانگریس لیڈی تلسی گبارڈ کو نیشنل اینٹیلیجنس کا ڈائریکٹر نامزد کیا ہے۔ تلسی گبارڈ ماضی میں مڈل ایسٹ اور جنوبی افریقہ میں کام کرچکی ہیں اور امریکی فوج میں لیفٹیننٹ کرنل کے طور پر بھی خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔ تلسی گبارڈ بھی پاکستان کی ناقد رہی ہیں۔ وہ اسامہ بن لادن کو پاکستان میں پناہ دینے کو پاکستان کا بڑا جرم تصور کرتی ہیں۔ تلسی، حافظ سعید کو ممبئی حملوں کا مسٹر مائینڈ بھی کہہ چکی ہیں۔
یہ تعیناتیاں کیا بتلاتی ہیں؟ یہ ضروری نہیں کہ نو منتخب امریکی صدر نے پاکستان کو سامنے رکھ کر اپنی حکومت تشکیل دی ہوگی لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ان تقرریوں میں پاکستان کے لیے کیا گنجائش نکلتی ہے؟ بظاہر تو ایسا نہیں لگتا کہ پاکستان کے لیے نئے امریکی سیٹ اپ میں کوئی بہت اچھی پیش رفت پیدا ہوسکے گی۔
تاہم عملیت پسند معاشروں میں ناممکن کچھ نہیں ہوتا۔
ایک اچھا بریک تھرو پاکستان کو واپس میدان میں لا سکتا ہے۔ ملکی سطح کی پالیسیوں میں ذاتی نظریات اور رجحانات کا عمل دخل کم ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مذکورہ شخصیات ماضی میں مختلف موضوعات پر سخت موقف اپناتی آئی ہیں لیکن جب آپ بطور ریاست کام کرتے ہیں تو آپ میں ریاستی سطح کی بہت سی نئی سنجیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔
مبصرین کا خیال ہے کہ نئی امریکی حکومت کو بہت سے دیگر اہم مسائل اور بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ پاکستان یا بھارت دونوں ہی فی الحال امریکی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔ لیکن اگر مستقبل میں امریکہ اور ایران کے درمیان کو کوئی بڑی جنگی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے تو جو ملک امریکی مفادات کے لیے خود کو آگے بڑھائے گا وہ امریکی ترجیحات میں شامل ہوجائے گا۔