پچھلے کچھ ہفتوں کے دوران اسرائیل کے اہم وزراء اور مذہبی رہنماؤں کی طرف سے مسجد اقصی میں در اندازی کے بیانات اور مسجد اقصی کے کمپاؤنڈ میں اسرائیلی آبادکاروں کے حملوں میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔
ایسی خبروں اور اطلاعات کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے جن میں مسجد اقصیٰ کے صحن اور احاطے میں اسرائیلی آبادکاروں کی بلاوجہ اشتعال انگیزی اور مداخلت کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔
پچھلے دنوں اسرائیل کے ایک وزیر نے مسجد اقصی میں داخل ہو کر عالمی معاہدوں اور امن پراسس کو سبوتاژ کیا۔ بعد ازاں مسجد اقصی کے احاطے میں یہودی عبادت گاہ کے قیام کا اظہار بھی کیا گیا۔
ابھی تک اس پر مسلمان ممالک کی طرف سے صرف سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے ایک مذمتی بیان جاری کیا ہے۔ سعودی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ ہم ان در اندازیوں کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب، یروشلم (القدس) اور اس کے مقدس مقامات کی تاریخی اور قانونی حیثیت کو متاثر کرنے والی ہر چیز کو واضح طور پر مسترد کرتا ہے۔
بیان میں عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اسرائیلی حکام کو اسلامی مقدس مقامات اور فلسطین میں بے گناہ شہریوں کے خلاف سنگین خلاف ورزیوں کے لیے انھیں جوابدہ ٹہرائے۔
واضح رہے کے پچھلے دنوں ایک سخت گیر اسرائیلی وزیر اتمار بن گویر نے اعلان کیا تھا کہ وہ مسجد اقصی میں یہودیوں کے ساتھ ملکر عبادت کرنے جائیں گے۔
اس پر مکہ مکرمہ سے رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سیکرٹری اور سابق خطیبِ حج ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم العیسی نے اسرائیلی وزیر کے بیان کی مذمت جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ حرکت ناقابل قبول ہے۔
ڈاکٹر عیسی نے کہا تھا کہ ایسے بایانات ایک تو عالمی معاہدوں اور قوانین کے خلاف ہیں جبکہ ان سے اشتعال پھیلنے کا اندیشہ بھی موجود ہے۔
واضح رہے کہ غزہ میں اسرائیل کو مکمل امریکی حمایت حاصل رہی ہے، بعد ازاں نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اسرائیل کے حق میں حالیہ بیانات کے بعد، اسرائیلی وزیروں اور آبادکاروں کی طرف سے مسجد اقصی میں مداخلتی دراندازیاں بڑھ گئی ہیں۔
عالمی مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل ایسے وقت میں کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش کر رہا ہے جب غزہ میں جنگ بندی کے لیے مذاکرات کار، امن معاہدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
رابطہ عالم اسلامی نے جنوبی غزہ میں واقع الزیتون علاقے کے ایک سکول پر اسرائیلی فضائی حملے کی بھی شدید مذمت کی ہے جہاں بے گھر شہریوں کو پناہ دی جا رہی تھی۔
اس حملے میں قریبی رہائشی عمارتیں بھی تباہ ہوئیں اور کم ازکم 22 افراد بھی موت کے گھاٹ اتر گئے۔ جبکہ متعدد زخمی ملبے تلے دب گئے ہیں، جن میں بیشتر بچے اور خواتین شامل ہیں۔
انسانی بستیوں پر حملے کرنا، اسپتالوں کو نظر آتش کرنا، انسانی حقوق کی تنظیموں کو متاثرہ علاقوں میں کام سے روکنا، یہ وہ کام ہیں جن پر یورپی یونین اور اقوام متحدہ نے بھی اسرائیل کی مذمت کی ہے۔
رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم العیسی نے کہا ہے کہ یہ کارروائیاں بین الاقوامی انسانی قوانین اور اقدار کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ عالمی برادری اسرائیلی فوج کی جانب سے کیے جانے والے "قتل عام” کو روکنے اور بے گناہ شہریوں کے مصائب کے خاتمے کے لیے فوری طور پر موثر اقدامات کرے۔
سعودی وزارت خارجہ نے بارہا اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ مسجد اقصی کی اہانت اور توہین اور اس کے اطراف و اکناف سے در اندازی کو قبول نہیں کریں گے۔
تاہم اسرائیلی وزیر کی طرف سے حالیہ بیانات اور در اندازی کی کوششوں سے واضح ہوتا ہے کہ اسرائیل امن مذاکرات کے لیے غیر سنجیدہ ہے۔
جبکہ دوسری طرف شدید سرد موسم نے غزہ کے نہتے عوام جو مہاجر کیمپوں میں مقیم ہیں، کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔
عوامی سطح پر کسی انسانی امداد کی رسائی ان تک ممکن نہیں ہے۔ تاہم ریڈ کراس، سعودی کنگ سلمان ریلیف پروگرام اور یو اے ای کے کچھ امدادی پیکجز کو مشروط رسائی دی گئی ہے۔
ناروے، جنوبی افریقہ، اور دیگر ممالک کی طرف سے بھی اسرائیلی رویے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔
تاہم مسجد اقصی کے کمپاونڈ اور اندرونی حصوں میں در اندازی کی حالیہ اسرائیلی کوششوں پر صرف سعودی عرب کی طرف سے ہی تردید سامنے آئی ہے۔
دوسری طرف شام کی تازہ ترین صورتحال سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اسرائیل نے گولان بفر زون کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔
یہ اپنی نوعیت کا الگ بین الاقوامی جرم ہے۔
اسرائیل ہر جنگ کے بعد ایسی پیش قدمی کرتا ہے کہ پھر اسے عالمی برادری اور ہمسایہ عرب ممالک بھی پیچھے نہیں ہٹا پاتے۔
مسجد اقصی کا معاملہ صرف عرب مسلمانوں کا معاملہ نہیں ہے، یہ پوری دنیا کے دو ارب سے زائد مسلمانوں کے مقدسات کا معاملہ ہے۔
اسرائیل کو ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جن کا تعلق پوری امت مسلمہ کے جذبات اور مذہبی تقدیس سے ہو۔
مسجد اقصی پر اسرائیلی قبضہ، القدس میں یہودی آباد کاروں میں مسلسل اضافہ اور اطراف و اکناف سے مسجد اقصی کی عمارت اور دیواروں کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں اضافہ، اس سب کچھ سے غیر تسلی بخش صورتحال کی عکاسی ہوتی ہے۔
او آئی سی، جی سی سی، عرب لیگ، سعودی عرب اور رابطہ عالم اسلامی سمیت اقوام متحدہ کی قرار دادیں اور بیانات اس بات کے شاہد ہیں کہ اسرائیل بین الاقوامی قوانین کا احترام نہیں کرتا۔
سعودی عرب اور جی سی سی ممالک کا یہ مطالبہ بجا ہے کہ خطے میں قیام امن کے لیے اسرائیل کو دو ریاستی حل کے فارمولے کو تسلیم کرنا چاہیے۔
اسرائیل کو چاہیے کہ وہ مغربی اردن اور فلسطین کے مقبوضہ علاقے خالی کرے، یروشلم یعنی مشرقی بیت المقدس اور مسجد اقصی فلسطین کو واپس لوٹائے۔
القدس کو فلسطین کا دار الحکومت تسلیم کیا جائے اور اسرائیل 1967 کی پوزیشن پر واپس جائے۔
عرب مبصرین کے بقول اگر اسرائیل ان شرائط کو تسلیم نہیں کرتا تو اسرائیل خطے میں کبھی اپنی ساکھ بہتر نہیں بنا پائے گا۔ اور نہ خطے میں پائیدار امن قائم ہوسکے گا۔
گو فی الحال نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ خطے میں اسرائیلی بالادستی قائم کروانے کے موڈ میں ہیں تاہم خطے کے ممالک اور عوام اس یکطرفہ حمایت سے بالکل خوش دکھائی نہیں دیتے۔