متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے اپنی حالیہ سفارتی کوششوں کے ذریعے روس اور یوکرین کے درمیان 300 قیدیوں کے کامیاب تبادلے میں ثالثی کا کردار ادا کیا۔
اس تبادلے میں 150 روسی اور 150یوکرینی قیدی شامل تھے، اور یہ اقدام نئے سال کے آغاز سے پہلے ایک اہم سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
یو اے ای نے اپنی اس کوشش کے ذریعے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کو مضبوط کیا بلکہ عالمی سطح پر امن کے فروغ میں اپنی اہمیت بھی اجاگر کی۔
یو اے ای کی وزارت خارجہ نے اس کامیابی پر روس اور یوکرین دونوں ممالک کا شکریہ ادا کیا۔ وزارت نے کہا کہ یہ ثالثی متحدہ عرب امارات کی غیرجانبدار اور قابل اعتماد ثالث کے طور پر حیثیت کو مزید مستحکم کرتی ہے۔
وزارت نے مزید کہا کہ یہ تبادلہ اس بات کی علامت ہے کہ یو اے ای پر دونوں فریقوں کا اعتماد برقرار ہے اور وہ انسانی بحرانوں کو کم کرنے کے لیے اپنی کوششیں کو ہمیشہ جاری رکھے گا۔
یہ تبادلہ 2024 میں یو اے ای کی جانب سے کیا گیا دسویں قیدی تبادلے کی کامیابی تھی، جس کے ذریعے اب تک مجموعی طور پر 2,484 قیدیوں کو رہا کیا جا چکا ہے۔
یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے اس موقع پر متحدہ عرب امارات کی کوششوں کو سراہا اور ان کی سفارتی معاونت کی تعریف کی۔ زیلنسکی نے تصدیق کی کہ 189 یوکرینی قیدی اپنے وطن واپس پہنچ چکے ہیں، جن میں سے دو شہری بھی شامل ہیں، جو 2022 میں روسی فورسز کی جانب سے ماریوپول میں پکڑے گئے تھے۔
زیلنسکی نے ان قیدیوں کی رہائی کو یوکرین کے لیے ایک اہم لمحہ قرار دیا اور کہا کہ ان افراد کی واپسی تمام یوکرینی عوام کے لیے امید کی ایک کرن ہے۔
رہا ہونے والے قیدیوں کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وسیع پیمانے پر شیئر کی گئیں، جن میں قیدیوں کو یوکرین کے نیلے اور پیلے جھنڈے میں لپٹے ہوئے دکھایا گیا۔
زیلنسکی نے اپنی ٹیم کی کوششوں کو سراہا اور کہا کہ وہ تمام قیدیوں کی واپسی کے لیے مسلسل جدوجہد کریں گے۔ روس کی وزارت دفاع نے بھی اس تبادلے کی تصدیق کی، اور دونوں ممالک نے 150 قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا۔ تاہم، قیدیوں کی تعداد میں فرق کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔
روس کی انسانی حقوق کمشنر تاتیانا موسکالکووا نے ایک ویڈیو جاری کی، جس میں رہا ہونے والے روسی قیدیوں کو دکھایا گیا، جو سردیوں کے لباس اور فوجی وردیوں میں ملبوس تھے۔
انہوں نے ان قیدیوں کو ان کے صبر، قربانی اور ہمت پر سراہا اور انہیں نئے سال کی مبارکباد دی۔ رہا ہونے کے بعد ان قیدیوں کو بیلاروس منتقل کیا گیا، جہاں انہیں طبی اور نفسیاتی معاونت فراہم کی گئی اور پھر انہیں روس واپس بھیج دیا گیا۔
یو اے ای کی وزارت خارجہ نے اس کامیاب ثالثی کو اپنی سفارتی کامیابیوں کی فہرست میں ایک اور اہم اضافہ قرار دیا۔ وزارت نے کہا کہ یہ کامیابی دونوں ممالک کے یو اے ای پر اعتماد اور سفارتی حل کے لیے اس کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
یو اے ای نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ انسانی بحران کو کم کرنے اور تنازع کے حل کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔ وزارت نے خاص طور پر جنگ کے اثرات سے متاثرہ پناہ گزینوں اور قیدیوں کے مسائل حل کرنے پر زور دیا ہے۔
یو اے ای کا یہ کردار کوئی نئی بات نہیں ہے۔ دسمبر 2022 میں، یو اے ای نے امریکہ اور روس کے درمیان قیدیوں کے تبادلے میں بھی ثالثی کی تھی، جس نے بین الاقوامی سطح پر اس کی حیثیت کو مزید مستحکم کیا۔
یہ کوششیں یو اے ای کو ایک موثر اور غیرجانبدار ثالث کے طور پر پیش کرتی ہیں، جو عالمی تنازعات میں امن و امان کے فروغ کے لیے مستقل طور پر کوشاں رہا ہے۔
روس اور یوکرین کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا یہ عمل فروری 2022 میں جنگ کے آغاز کے بعد سے جاری ہے۔ اب تک 60 مختلف قیدیوں کے تبادلے ہو چکے ہیں، جن میں مجموعی طور پر ہزاروں افراد رہا کیے جا چکے ہیں۔
یوکرین کے حکام کے مطابق، روس نے 3,956 افراد کو رہا کیا ہے، جن میں فوجی اور شہری دونوں افراد شامل ہیں۔ زیلنسکی نے باقی قیدیوں کی رہائی کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھنے کا وعدہ کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یوکرین ہر اس شخص کو واپس لائے گا جو روس میں قید ہے۔
یہ سفارتی کامیابی ایک ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کی شدت اب بھی برقرار ہے۔ یو اے ای کے ثالثی کردار نے نہ صرف قیدیوں کے خاندانوں کو فوری ریلیف فراہم کیا ہے بلکہ اس اقدام نے تنازع کے حل کے لیے ایک اہم راستہ بھی ہموار کیا ہے۔
یو اے ای کی حکومت نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اس کے ثالثی اقدامات دونوں فریقوں کے لیے قابل قبول ہوں اور انسانی ہمدردی کے تحت کیے جائیں۔
یہ اقدام عالمی سطح پر ایک یاد دہانی ہے کہ بین الاقوامی تنازعات میں غیرجانبدار ثالث کا کردار کس قدر اہم ہو سکتا ہے۔ یو اے ای کی مسلسل کوششیں عالمی سطح پر انسانی بحران کو کم کرنے اور امن کو فروغ دینے میں ایک روشن مثال کے طور پر دیکھی جا رہی ہیں۔
رہا کیے گئے قیدیوں کے اہل خانہ ان کی واپسی پر خوشی منا رہے ہیں، اور اس مثبت قدم نے بہت سے لوگوں کو امید دلائی ہے کہ امن ممکن ہے۔
یو اے ای نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ تنازع کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔
یہ تازہ ترین تبادلہ روس اور یوکرین کی جانب سے قیدیوں کی رہائی کے لیے جاری کوششوں کو اجاگر کرتا ہے، حالانکہ جنگی حالات بدستور برقرار ہیں۔
شامل قیدیوں کی بڑی تعداد جنگ کے انسانی نقصانات کو نمایاں کرتی ہے اور ان افراد کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے انسانی ہمدردی پر مبنی اقدامات کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔