امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر دھمکی دی ہے کہ اگر حماس نے میرے آفس سنبھالنے تک اسرائیلی یرغمالیوں کو واپس نہ کیا تو یہ نہ صرف حماس کے لیے اچھا نہیں ہوگا بلکہ یہ مشرق وسطی میں کسی کے لیے بھی اچھا نہیں ہوگا۔
واضح رہے کہ نو منتخب امریکی صدر اسی مہینے امریکہ کے 47ویں صدر کا حلف اُٹھائیں گے۔ انھوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا کہ میرے حلف لینے سے قبل معاملات طے نہ پائے تو مشرق وسطی میں جہنم کھل جائے گا۔
تاہم ابھی تک صدر ٹرمپ نے واضح نہیں کیا کہ وہ کیا کریں گے۔
جبکہ دوسری طرف حماس کی عسکری قیادت نے کہا ہے کہ یرغمالیوں میں سے بہت سے اسرائیلی بمباری کا شکار ہو کر ہلاک ہوچکے ہیں۔ جو باقی ہیں انھیں مذاکرات اور امن پراسس کے ذریعے واپس کردیا جائے گا۔
صدر ٹرمپ کے تیور بتلا رہے کہ وہ خلیجی ممالک بالخصوص اسرائیل کے ہمسایہ عرب ممالک پر دھمکی کے ذریعے کنٹرول رکھنا چاہتے ہیں، الیکشن جیتنے کے بعد انھوں نے یہ دھمکی دوسری بار دی ہے۔
تین ہفتے قبل ایک سوشل میڈیا پوسٹ کے ذریعے بھی انھوں نے کہا تھا کہ میرے حلف لینے سے قبل اگر حماس کی طرف سے اسرائیلی یرغمالیوں کو واپس نہیں کیا گیا تو وہ پورے مڈل ایسٹ کو جہنم بنادیں گے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کی حالیہ اور مسلسل دھمکیوں کا اثر حماس پر کیا ہوتا ہے؟
حماس کی دستیاب لیڈر شپ مذاکرات کے لیے تیار ہے اور جہاں مذاکرات ہو رہے ہیں وہاں موجود ہے لیکن صدر ٹرمپ کے حالیہ بیانات پر ان کی طرف سے کوئی خاص رد عمل سامنے نہیں آیا۔
چند ہفتے قبل جب صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پوسٹ کے ذریعے دھمکی دی تھی تو حماس کی لیڈر شپ نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ جن یرغمالیوں کی ہلاکت کی بات صدر ٹرمپ کر رہے ہیں وہ اسرائیلی بمباری میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
سوشل میڈیا پر دھمکی کے بعد، اب صدر ٹرمپ نے براہ راست اور قدرے تلخ لہجے میں ایک پریس کانفرنس کے دوران دھمکی دی ہے۔
اہم ایشو یہ ہے کہ جب وہ یرغمالی زندہ ہی نہیں ہیں جن کی وجہ سے صدر ٹرمپ بار بار حماس اور پورے مڈل ایسٹ کو للکار رہے ہیں تو وہ واپس کیسے ہوں گے؟ جب وہ واپس ہی نہیں ہوں گے تو کیا صدر ٹرمپ آتے ہی مشرق وسطی کو جہنم بنانا شروع کردیں گے؟
اس سوال کا جواب آنے والے دنوں میں صدر ٹرمپ کے حلف لینے کے بعد واضح طور پر سامنے آسکے گا۔