سوئیڈن کے حکام نے تصدیق کی ہے کہ سالوَن مومیکا، وہ عراقی شہری جس نے قرآن پاک کو کئی بار سرعام نذرِ آتش کیا تھا، ایک حملے میں مارا گیا ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق، اسے ایک نزدیکی شہر میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔
38 سالہ مومیکا نے 2023 میں کئی مواقع پر قرآن جلایا، جس کی وجہ سے نہ صرف سوئیڈن میں تنازع پیدا ہوا بلکہ مسلم اکثریتی ممالک میں شدید غم و غصہ اور پرتشدد مظاہرے بھی دیکھنے میں آئے۔
ان مظاہروں میں بعض اوقات سوئیڈن مخالف ہنگامے بھی دیکھے گئے۔
بدھ کی رات پولیس کو سودرٹیلیہ (Södertälje) شہر میں فائرنگ کی اطلاع ملی، جو سٹاک ہوم کے قریب واقع ہے۔ جب پولیس موقع پر پہنچی تو ایک گولیوں سے زخمی شخص ملا، جو بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔
حکام نے اس واقعے کو قتل کا مقدمہ قرار دے کر تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
سوئیڈش میڈیا کے مطابق، پانچ افراد کو اس قتل کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس ان رپورٹس کی بھی جانچ کر رہی ہے جن کے مطابق یہ واقعہ سوشل میڈیا پر براہ راست نشر کیا جا سکتا ہے۔
مومیکا 2018 میں عراق سے سوئیڈن آیا تھا اور اسے 2021 میں تین سالہ رہائشی اجازت نامہ دیا گیا تھا۔ تاہم، قرآن جلانے کے واقعات کی وجہ سے وہ قانونی مسائل میں الجھ گیا تھا۔
اس کے خلاف نسلی نفرت کو ہوا دینے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا، اور اسے جمعرات کو عدالت میں پیش ہونا تھا۔ لیکن اس کی موت کے بعد سٹاک ہوم ڈسٹرکٹ کورٹ نے اعلان کیا کہ مقدمے کا فیصلہ مؤخر کر دیا گیا ہے۔ بعد ازاں، عدالت نے تصدیق کی کہ مرنے والا شخص مومیکا ہی تھا۔
مومیکا نے ہمیشہ اپنے دفاع میں کہا کہ اس کے احتجاج کا ہدف اسلام بطور مذہب تھا، نہ کہ مسلمان افراد۔ اس نے دعویٰ کیا کہ وہ سوئیڈن کی عوام کو قرآن کے پیغامات سے محفوظ رکھنا چاہتا تھا۔
سوئیڈش پولیس نے اسے اظہارِ رائے کی آزادی کے تحت مظاہروں کی اجازت دی تھی، مگر اس کے خلاف مقدمہ بھی درج کر لیا تھا۔
اس کے قتل کی تصدیق کے بعد، سوئیڈش سیکیورٹی سروس (SÄPO) نے واضح کیا کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات میں شامل نہیں ہے۔
تنظیم کی ترجمان کرین لٹز (Karin Lutz) نے کہا کہ ان کا ادارہ صرف سوئیڈن کی سیکیورٹی کو لاحق خطرات پر نظر رکھتا ہے، لیکن مومیکا کی تحفظ کی ذمہ داری ان کے پاس نہیں تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ قرآن جلانے کے واقعات، جن میں مومیکا بھی شامل تھا، نے سوئیڈن کی سیکیورٹی کو نقصان پہنچایا۔
تاہم، احتجاجی اجازت نامے اور سیکیورٹی کے معاملات پولیس کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔