دنیا بھر میں نو میں سے ایک شخص ہر رات بھوکا سوتا ہے، جبکہ 23% ممالک غذائی تحفظ کے بحران کا شکار ہیں۔ ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن کے مطابق، 2.8 بلین سے زائد لوگوں کو صحت مند خوراک تک رسائی نہیں ہے۔ لیکن یہاں ایک اور حیران کن حقیقت ہے: دنیا بھر میں ہر سال 1.3 بلین ٹن خوراک ضائع ہوتی ہے، جس کی مالیت تقریباً 1 ٹریلین ڈالر ہے۔ یہ ضائع شدہ خوراک 800 ملین سے زائد بھوکے لوگوں کی ضروریات پوری کر سکتی ہے۔
خوراک کے ضیاع کے اسباب میں زرعی پیداوار کے دوران کیڑے، بیماریاں اور غیر مؤثر فصل کٹائی کے باعث 500 ملین ٹن خوراک ضائع ہوتی ہے۔ ذخیرہ اور نقل و حمل کے دوران خراب انتظام کے باعث 350 ملین ٹن خوراک ضائع ہو جاتی ہے۔ گھریلو سطح پر سپر مارکیٹس اور گھروں میں 35% خوراک ضائع ہوتی ہے، حالانکہ یہ کھانے کے قابل ہوتی ہے۔
خوراک کی کمی کے اثرات بھی سنگین ہیں۔ 2023 میں 713 سے 757 ملین افراد غذائی قلت کا شکار تھے۔ افریقہ میں 20.4% اور ایشیا میں 8.1% آبادی بھوک کی مار ہے۔ 2030 تک 582 ملین افراد غذائی قلت کا شکار ہو سکتے ہیں۔
پاکستان کی صورتحال بھی تشویشناک ہے۔ پاکستان میں سالانہ 36 ملین ٹن خوراک ضائع ہوتی ہے، جو کل پیداوار کا 40% ہے۔ 2022 کے سیلاب کے بعد، بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا میں 8.6 ملین افراد شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
خوراک کا ضیاع گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا بڑا ذریعہ ہے، جو موسمیاتی تبدیلیوں کو تیز کر رہا ہے۔ گوشت کی پیداوار، خاص طور پر گائے کا گوشت، میتھین گیس کے اخراج کا سبب بنتا ہے، جو کاربن ڈائی آکسائیڈ سے 84 گنا زیادہ مضر ہے۔
اقوام متحدہ نے 2030 تک خوراک کے ضیاع کو نصف کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ اس کے لیے پیداوار، ذخیرہ اور تقسیم کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ہر فرد کو اپنے گھر میں خوراک کے ضیاع کو کم کرنے میں کردار ادا کرنا ہوگا۔
خوراک کا ضیاع نہ صرف وسائل کی بربادی ہے، بلکہ یہ انسانی وقار کے ساتھ بھی کھیلنے کے مترادف ہے۔ اگر ہم خوراک کے ضیاع کو کم کر دیں، تو دنیا بھر میں بھوک کا خاتمہ ممکن ہے۔ یہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی عادات بدلیں اور اس المناک حقیقت کو بدلنے میں اپنا کردار ادا کریں۔