امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں 23 سے 25 مارچ 2025 تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد روس اور یوکرین کے درمیان بحیرہ اسود میں محفوظ جہاز رانی اور توانائی کے بنیادی ڈھانچے پر حملوں کی معطلی پر اتفاق ہوا ہے۔
ان مذاکرات میں امریکی، روسی اور یوکرینی وفود نے شرکت کی، اور فریقین کے درمیان کئی اہم معاملات پر مفاہمت طے پائی ہے۔
وائٹ ہاؤس کے جاری کردہ بیان کے مطابق، امریکہ اور روس نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ بحیرہ اسود میں جہاز رانی کی مکمل حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا۔
دونوں ممالک نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ طاقت کے استعمال کو ترک کیا جائے گا، اور تجارتی بحری جہازوں کو کسی بھی عسکری یا جنگی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔
اس معاہدے کا مقصد خطے میں استحکام قائم کرنا اور بین الاقوامی تجارتی راستوں کو محفوظ بنانا ہے۔
مذاکرات کے نتیجے میں ایک اور اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ روس اور یوکرین نے توانائی کے بنیادی ڈھانچے پر حملے بند کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔
اس معاہدے کے تحت، دونوں ممالک کی تیل و گیس کی تنصیبات اور دیگر توانائی کے وسائل کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔
اس معاہدے کی نگرانی کے لیے ایک مشترکہ کمیٹی تشکیل دی جائے گی، جو اس امر کو یقینی بنائے گی کہ کوئی بھی ملک معاہدے کی خلاف ورزی نہ کرے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق، امریکہ نے اس بات پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے کہ وہ روس کی زرعی اور کھاد کی برآمدات کو عالمی منڈی تک رسائی دینے میں مدد کرے گا۔
اس اقدام کے تحت سمندری تجارت کی انشورنس لاگت میں کمی، بندرگاہوں تک بہتر رسائی اور عالمی ادائیگی کے نظام SWIFT تک رسائی کے حوالے سے بات چیت جاری رہے گی۔
تاہم، امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اس پر زور دیا ہے کہ روس کو ان مراعات کے بدلے معاہدے پر مکمل عمل درآمد یقینی بنانا ہوگا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان ہونے والی بات چیت کے نتیجے میں یہ اقدامات طے پائے ہیں۔
دونوں رہنماؤں نے توانائی اور بحری تجارت سے متعلق ان معاہدوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے مزید مذاکرات جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
اس پیش رفت کو عالمی سطح پر ایک مثبت قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو یوکرین میں جاری جنگ کو محدود کرنے اور خطے میں استحکام قائم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ان مذاکرات کو امن کے قیام کی جانب صحیح قدم قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ابتدائی مراحل ہیں، لیکن اگر دونوں فریق معاہدے کی پاسداری کریں تو مکمل جنگ بندی اور دیرپا امن کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے بھی ان معاہدوں کا خیرمقدم کیا، تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ روسی مفادات کو مدنظر رکھا جائے گا اور اس پر عمل درآمد کی نگرانی کی جائے گی۔
یہ معاہدہ بحیرہ اسود میں محفوظ تجارتی راستے یقینی بنانے کی ایک اور کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اس سے قبل 2022 میں اقوام متحدہ اور ترکی کی جانب سے بھی ایک ایسا ہی معاہدہ کرایا گیا تھا، لیکن 2023 میں روس کی جانب سے اس معاہدے کو ختم کر دیا گیا تھا۔
اب روس نے عندیہ دیا ہے کہ اگر اس کے زرعی برآمدات پر عائد پابندیاں نرم کی جائیں تو وہ بحیرہ اسود کی بحری تجارت کو بحال کرنے کے لیے تیار ہے۔
کریملن کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ روس نے بحیرہ اسود میں جہاز رانی کی حفاظت یقینی بنانے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
تاہم، روس نے واضح کیا ہے کہ اس معاہدے پر مکمل عمل درآمد تبھی ممکن ہوگا جب روسی زرعی بینک اور دیگر مالیاتی اداروں پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں اور انہیں SWIFT سسٹم تک مکمل رسائی دی جائے۔
امریکہ نے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا بھی شکریہ ادا کیا ہے کہ انہوں نے ان اہم مذاکرات کی میزبانی کی اور تمام فریقین کو ایک میز پر بٹھانے میں اہم کردار ادا کیا۔
امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ان مذاکرات کو مزید آگے بڑھانے اور یوکرین میں جاری جنگ کے خاتمے کے لیے سفارتی کوششیں جاری رکھے گی تاکہ ایک دیرپا اور منصفانہ امن معاہدہ ممکن ہو سکے۔