کینیڈا اور امریکہ کے تعلقات میں نمایاں تبدیلیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں، اور وزیر اعظم مارک کارنے نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان روایتی تعلقات اب قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔
انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ کینیڈا کو مستقبل میں اپنی معیشت اور خارجہ پالیسی کے لیے ایک نئی راہ اختیار کرنی ہوگی، کیونکہ امریکہ پر انحصار اب پہلے جیسا ممکن نہیں رہا۔
اوٹاوا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے، کارنے نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ اور کینیڈا کے درمیان ماضی میں جو قریبی اقتصادی اور سکیورٹی تعلقات تھے، وہ اب برقرار نہیں رہے۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ واقعات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ اب پہلے جیسا بھروسے مند شراکت دار نہیں رہا، اور دونوں ممالک کو اپنے تعلقات کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
کارنے نے یہ بھی واضح کیا کہ امریکی حکومت کی جانب سے ٹیرف اور تجارتی پابندیوں کی دھمکیوں کے بعد کینیڈا کے پاس اپنی اقتصادی حکمت عملی میں بنیادی تبدیلیاں لانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کینیڈا کو اپنی تجارتی شراکت داریوں کو متنوع بنانا ہوگا اور ایسے اتحادی تلاش کرنے ہوں گے جو زیادہ پائیدار اور قابل اعتماد ثابت ہو سکیں۔
اپنے پہلے بین الاقوامی دورے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے، وزیر اعظم کارنے نے کہا کہ انہوں نے جان بوجھ کر فرانس اور برطانیہ جیسے اتحادی ممالک کا انتخاب کیا، کیونکہ یہ وہ ممالک ہیں جن کے ساتھ کینیڈا کے تعلقات تاریخی طور پر مستحکم اور دیرینہ رہے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کینیڈا مستقبل میں اپنی خارجہ پالیسی میں زیادہ خودمختاری اور آزادی کا مظاہرہ کرے گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے یورپی یونین اور کینیڈا پر اضافی محصولات عائد کرنے کی دھمکیوں کا حوالہ دیتے ہوئے، کارنے نے کہا کہ اگر واشنگٹن نے ان پابندیوں کو مستقل کر دیا تو اس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور سفارتی تعلقات پر وسیع پیمانے پر نظرثانی کی ضرورت ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ کینیڈا کو ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جو ماضی میں ناقابل تصور سمجھے جاتے تھے، اور یہ کہ ان کی حکومت امریکہ پر انحصار کو نمایاں طور پر کم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے گی۔
امکان ہے کہ وزیر اعظم کارنے اور صدر ٹرمپ آنے والے دنوں میں فون پر بات چیت کریں گے۔
اگرچہ کارنے نے فوری طور پر واشنگٹن کا دورہ کرنے کا ارادہ ظاہر نہیں کیا، لیکن یہ ممکن ہے کہ ان کی کابینہ کے بعض ارکان امریکہ جا کر اہم مذاکرات میں حصہ لیں۔
وائٹ ہاؤس کی طرف سے بدھ کی رات ایک ممکنہ کال کے حوالے سے عندیہ دیا گیا تھا، تاہم اس حوالے سے مزید تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔