سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کو سخت انتباہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وہ امریکی کمپنیوں کو یوکرین کی نایاب معدنیات تک رسائی دینے والے معاہدے پر دستخط نہیں کرتے، تو انہیں "بڑے مسائل” کا سامنا کرنا پڑے گا۔ غیرملکی خبر رساں ادارے کے مطابق، ٹرمپ یوکرین اور روس کے درمیان جنگ بندی کے لیے سرگرم ہیں، لیکن ساتھ ہی وہ یوکرین کے قیمتی معدنی وسائل پر بھی نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ ایئر فورس ون میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ زیلنسکی اس نایاب معدنی معاہدے سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو انہیں بہت بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
فروری 2025 میں، ٹرمپ نے یوکرین کے اربوں ڈالر مالیت کے معدنی ذخائر پر خصوصی توجہ مرکوز کی تھی۔ ان کا مؤقف تھا کہ روس کے ساتھ جنگ میں امریکا جو خطیر رقم خرچ کر چکا ہے، اسے یوکرین کی قیمتی معدنیات کے ذریعے پورا کیا جا سکتا ہے۔ ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ یوکرین کے ساتھ ایسا معاہدہ کرنا چاہتی تھی جس میں ابتدائی طور پر یہ طے کیا جاتا کہ یوکرین کے وسیع وسائل میں سے امریکا کا کتنا حصہ ہوگا، جبکہ تفصیلی شرائط پر بعد میں بات کی جاتی۔
یوکرین کے صدر زیلنسکی نے حال ہی میں امریکی تجویز مسترد کر دی، جس کے مطابق واشنگٹن کو یوکرین کی 50 فیصد اہم معدنیات گریفائٹ، یورینیم، ٹائٹینیم، اور لیتھیم دینے کا معاہدہ کیا جانا تھا۔ ان معدنیات کی اہمیت خاص طور پر الیکٹرک کاروں کی بیٹری کی تیاری میں بہت زیادہ ہے، جو عالمی منڈی میں قیمتی اثاثہ سمجھی جاتی ہیں۔
ٹرمپ کی وارننگ اور زیلنسکی کی مزاحمت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یوکرین نہ صرف جنگی محاذ پر، بلکہ معاشی اور تجارتی دباؤ کا بھی سامنا کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا زیلنسکی امریکی دباؤ کے سامنے جھکیں گے یا اپنی معدنی دولت کی حفاظت کے لیے ڈٹے رہیں گے؟ اور کیا ٹرمپ واقعی اس معاملے کو اتنا سنگین بنا سکتے ہیں کہ زیلنسکی کے لیے "بڑے مسائل” پیدا ہوں؟