ایرانی صدر مسعود پیزشکیان نے واضح کیا ہے کہ تہران امریکہ کے ساتھ براہِ راست مذاکرات نہیں کرے گا، جو کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق لکھے گئے خط کے جواب میں پہلا باضابطہ ردعمل ہے۔
تاہم، انہوں نے یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ بلواسطہ مذاکرات کے امکانات کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا جا سکتا، اور اس حوالے سے سفارتی راستے کھلے رکھے جا سکتے ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، ایران کا یہ اعلان دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے کشیدہ تعلقات میں مزید تناؤ کا باعث بن سکتا ہے۔
اس کے باوجود یہ واضح نہیں ہے کہ آیا امریکی انتظامیہ بلواسطہ مذاکرات کو قبول کرے گی یا نہیں۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکہ اور اسرائیل دونوں ہی ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے عزم کا اعادہ کر رہے ہیں۔
ایران کی جانب سے یورینیم کی افزودگی اُس سطح تک پہنچ رہی ہے جس پر جوہری ہتھیار بنانے والے دیگر ممالک پہنچ چکے ہیں، جس کی وجہ سے خطے میں عسکری تصادم کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔
2018 میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے سے یکطرفہ علیحدگی کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کئی مرتبہ بلواسطہ مذاکرات کی کوششیں کی گئیں، لیکن یہ تمام کوششیں نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکیں۔
ایران طویل عرصے سے یہی مؤقف رکھتا آیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف اور صرف پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔
تاہم، مسلسل امریکی پابندیاں اور غزہ میں جاری جنگ کے پس منظر میں ایرانی حکام کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے عندیے بھی دیے گئے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ وائٹ ہاؤس سنبھالنے کے بعد سے ان کی حکومت کا مؤقف یہی رہا ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے ہر صورت میں روکا جائے گا۔
اس حوالے سے اقوامِ متحدہ کے جوہری نگران ادارے نے فروری میں جاری کردہ اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ ایران نے تقریباً جوہری ہتھیاروں کے درجے تک پہنچنے والی یورینیم کی پیداوار میں نمایاں تیزی لائی ہے، جو کہ عالمی برادری کے لیے ایک تشویشناک اشارہ ہے۔