امریکہ ایک بار پھر گونج اٹھا، لیکن اس بار احتجاجی نعروں سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ارب پتی صنعتکار ایلون مسک کے خلاف ہفتے کو شروع ہونے والی ملک گیر مہم ‘ہینڈز آف’ نے امریکی سیاست میں نئی ہلچل پیدا کر دی۔ امریکہ کی پچاس ریاستوں میں بیک وقت 1200 مقامات پر ہزاروں شہری سڑکوں پر نکلے، جنہوں نے ٹرمپ کی پالیسیوں، طرز حکمرانی اور امیگریشن قوانین کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔
واشنگٹن ڈی سی سے نیویارک اور بوسٹن تک، مظاہرین نے انسانی حقوق، ملازمتوں کی کٹوتی، اور سوشل سیکیورٹی میں کمی کے خلاف بینرز اٹھا رکھے تھے۔ ویسٹ کوسٹ پر سیٹل کے ’سپیس نیڈل‘ کے سامنے "محدود افراد کی حکومت” کے خلاف نعرے گونجے، جبکہ پورٹ لینڈ اور لاس اینجلس میں مظاہرین نے پرشنگ اسکوائر سے سٹی ہال تک تاریخی مارچ کیا۔
یہ احتجاج نہ صرف ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلوں بلکہ ایلون مسک کے کردار پر بھی تھا، جنہوں نے نئے حکومتی محکمے کے تحت وفاقی ملازمین کی برطرفیوں میں کلیدی کردار ادا کیا۔ انسانی حقوق کی علمبردار کیلی رابنسن نے واضح الفاظ میں کہا: "ہم ایسا امریکہ نہیں چاہتے جہاں آزادی صرف چند کے لیے ہو۔ ہم ایسا امریکہ چاہتے ہیں جہاں وقار اور مساوات سب کے لیے ہو۔”
بوسٹن کی میئر مشیل وو نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسا ملک نہیں دیکھنا چاہتیں جہاں ان کے بچوں کے لیے تنوع اور رواداری اجنبی تصورات ہوں۔ ادھر فلوریڈا میں بھی ٹرمپ کے گولف کورس کے قریب سینکڑوں افراد نے احتجاج کیا، کاریں ہارن بجاتی رہیں اور فضا میں ٹرمپ مخالف نعرے گونجتے رہے۔
اگرچہ صدر ٹرمپ کے ترجمان نے اس سب کو "ڈیموکریٹس کی سوشل سیکیورٹی کو دیوالیہ کرنے کی کوشش” قرار دیا، لیکن سڑکوں پر عوام کا جوش اور جذبہ کچھ اور ہی کہانی سنا رہا تھا—ایک ایسی قوم کی، جو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے متحد ہو رہی ہے۔ یہ مظاہرہ، جو بظاہر محض ایک احتجاج تھا، درحقیقت امریکی جمہوریت کی نئی کروٹ بن کر ابھرا ہے۔