واشنگٹن :عالمی سفارتکاری کے افق پر ایک غیر متوقع پیش رفت، جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اوول آفس میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ہمراہ بیٹھ کر دنیا کو حیران کر دینے والا اعلان کر دیاہفتے کو ایران کے ساتھ اعلیٰ سطحی براہ راست مذاکرات کا آغاز ہو رہا ہے
یہ اعلان اس وقت کیا گیا جب نیتن یاہو ٹرمپ سے ملاقات کے لیے وائٹ ہاؤس پہنچے تھے۔ پریس کانفرنس میں ٹرمپ نے پر اعتماد لہجے میں کہا: ہم ایران سے بات کر رہے ہیں، شاید کوئی معاہد ہو جائے، اور یہ بہترین ہوگا۔
لیکن دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ایران نے محض ایک روزقبل ایسے کسی بھی معاہدے یا مذاکرات کو بے معنی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔ اس سے بظاہر لگتا ہے کہ یا تو واشنگٹن کوئی نئی چال چل رہا ہے، یا تہران پس پردہ بات چیت کے لیے تیار ہو چکا ہے۔
یاد رہے کہ ٹرمپ نے 2018 میں اپنے پہلے دورِ صدارت کے دوران ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبرداری اختیار کی تھی۔ اب، ایک بار پھر ان کی جانب سے ایران کے ساتھ معاہدے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے ،یک ایسی صورت میں جب خطے میں اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ میں کسی ‘واضح اقدام’ کا حصہ بننا نہیں چاہتاہوں، اور سچ کہوں تو اسرائیل ضرور چاہتا ہے، ٹرمپ نے اشاروں میں یہ بات کہہ کر نہ صرف ایران کو خبردار کیا بلکہ اسرائیل کی ممکنہ عسکری حکمت عملی کو بھی اجاگر کر دیا۔
نیتن یاہو نے بھی اس موقعے کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ وہ ٹرمپ سے محصولات میں نرمی کی استدعا کرنے والے پہلے غیر ملکی رہنما بنے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ اسرائیل امریکا کے ساتھ تجارتی خسارہ کم کرے گا* اور تمام تجارتی رکاوٹیں دور کرے گا۔
ہم نے امریکی مصنوعات پر باقی تمام محصولات ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، نیتن یاہو نے فخریہ انداز میں اعلان کیا، اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اسرائیل دنیا کے لیے ایک تجارتی ماڈل بن سکتا ہے
ٹرمپ کا یہ جملہ کہ معاہدہ، حملے سے بہتر ہےدنیا کو یہ باور کرانے کے لیے کافی ہے کہ واشنگٹن اس بار سفارتکاری کو ترجیح دے رہا ہے مگر کب تک؟ اور نیتن یاہو کا تجارتی اسٹینڈکیا یہ محض ایک اقتصادی چال ہے یا سیاسی برتری کا اشارہ؟