بین الاقوامی سطح پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کرنے والے اداروں کو اس وقت شدید مالی بحران کا سامنا ہے، اور اس صورتحال کی ایک بڑی وجہ ان ممالک کی مالی کٹوتیاں ہیں جو روایتی طور پر ان تنظیموں کے بڑے عطیہ دہندگان رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے کئی ذیلی ادارے، جو دنیا بھر میں غذائی قلت، بھوک، اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل ہیں، حالیہ مہینوں میں شدید دباؤ کا شکار ہیں۔
اقوام متحدہ کے تحت کام کرنے والے ایک اہم ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) نے گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے 14 ایسے ممالک کے لیے ہنگامی خوراک کی امداد بند کر دی گئی ہے، جہاں لاکھوں انسانوں کی بقا اس امداد پر منحصر تھی۔
ورلڈ فوڈ پروگرام نے اگرچہ ان ممالک کے نام ظاہر نہیں کیے، تاہم ادارے نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں یہ تنبیہ ضرور کی کہ اگر یہ فیصلہ برقرار رہا تو یہ ان افراد کے لیے سزائے موت کے مترادف ہوگا، جو پہلے ہی شدید بھوک، افلاس اور قحط کا سامنا کر رہے ہیں۔
قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ ورلڈ فوڈ پروگرام کو رواں برس پہلے ہی چالیس فیصد فنڈز میں کمی کا سامنا ہے، جس کے باعث ادارے کی عالمی سطح پر امدادی سرگرمیاں محدود ہوتی جا رہی ہیں۔
موجودہ صورتحال میں امریکہ کی جانب سے مزید امداد کی بندش نہ صرف پروگرام کی استعداد کو متاثر کرے گی بلکہ دنیا کے مختلف خطوں میں پہلے سے موجود انسانی المیوں کو مزید سنگین بنا دے گی۔
یہ بحران صرف WFP تک محدود نہیں، بلکہ اقوام متحدہ کا پاپولیشن فنڈ بھی اسی نوعیت کے فیصلوں سے متاثر ہوا ہے۔
اس ادارے نے اے ایف پی کو بتایا کہ امریکی انتظامیہ نے انہیں مطلع کیا ہے کہ جنسی و تولیدی صحت سے متعلق دو پروگرام، ایک افغانستان اور دوسرا شام میں، مکمل طور پر بند کیے جا رہے ہیں۔
ان منصوبوں کا مقصد خواتین و بچوں کی صحت کو بہتر بنانا اور معاشرتی ترقی کو فروغ دینا تھا۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ صورتحال اس پالیسی کا تسلسل ہے جو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے دور میں اختیار کی گئی، جس کے تحت امریکہ نے عالمی امدادی اداروں کے فنڈز میں بڑی سطح پر کٹوتیاں کیں۔ اس فیصلے سے نہ صرف اقوام متحدہ کے ادارے بلکہ ہزاروں غیر سرکاری تنظیمیں (NGOs) بھی متاثر ہوئیں، جن کا انحصار انہی فنڈز پر ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں، صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ حالیہ مہینوں میں دیگر ترقی یافتہ ممالک نے بھی فنڈز میں کمی کے اعلانات کیے ہیں، جس کے باعث عالمی فلاحی اداروں میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔
سب سے زیادہ اثر امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (USAID) پر پڑا ہے، جو دنیا بھر میں سب سے بڑی انسانی امدادی تنظیم سمجھی جاتی ہے۔
اس کا سالانہ بجٹ جو پہلے 42.8 ارب ڈالر تھا، اب نمایاں طور پر کم کر دیا گیا ہے، حالانکہ یہ رقم عالمی امدادی نظام کا 42 فیصد حصہ بنتی تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر عالمی طاقتیں اپنے وعدے پورے نہ کریں اور انسان دوست امداد میں اس طرح کی کٹوتیاں جاری رہیں، تو دنیا کے کئی خطے نہ صرف انسانی المیے کا شکار ہوں گے بلکہ ان کے اثرات عالمی امن و استحکام پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔