جدید ٹیکنالوجی کی دنیا میں جاپان ایک بار پھر سبقت لے گیا، جہاں پہلی مرتبہ تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے محض چند گھنٹوں میں ایک مکمل ریلوے اسٹیشن تیار کر کے عالمی برادری کو حیران کر دیا گیا۔
جاپان کے مغربی ریلوے ادارے نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے صوبہ اریڈا میں واقع قدیمی ہتسوشیما ریلوے اسٹیشن کو جدید خطوط پر دوبارہ تعمیر کر لیا ہے۔
یہ نیا اسٹیشن دراصل 1948 سے قائم ایک لکڑی کے اسٹیشن کی جگہ پر بنایا گیا ہے، جسے زلزلے اور وقت کے ساتھ ہونے والی خستہ حالی کے بعد تبدیل کرنے کی ضرورت تھی۔
حیران کن بات یہ ہے کہ اس جدید تعمیراتی منصوبے کو صرف چھ گھنٹوں سے بھی کم وقت میں مکمل کر لیا گیا۔
ریلوے حکام کے مطابق، یہ اسٹیشن پہلے ہی سے خودکار طریقے سے کام کرتا رہا ہے اور روزانہ تقریباً 500 سے زائد مسافروں کو سہولت فراہم کرتا ہے۔
اس مقام پر فی گھنٹہ تقریباً 1 سے 3 ٹرینیں گزرتی ہیں۔
اس تعمیراتی کارنامے کو ممکن بنانے کے لیے معروف جاپانی کمپنی سیرینڈکس کی تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کا سہارا لیا گیا۔
کمپنی کے مطابق، اسٹیشن کے مختلف حصے ایک مخصوص فیکٹری میں سات روز کے اندر تیار کیے گئے۔
یہ فیکٹری جاپان کے کیوشو جزیرے پر واقع کماموٹو پریفیکچر میں ہے، جو تعمیراتی مقام سے تقریباً 800 کلومیٹر دور ہے۔
وہاں سے پرزے خصوصی ٹرکوں کے ذریعے اریڈا پہنچائے گئے۔
24 مارچ کی شام کو جب یہ پرزے پہنچے، تو منگل کی رات کو جیسے ہی آخری ٹرین اپنی روانگی کے بعد اسٹیشن خالی ہوا، مزدوروں نے فوری طور پر تعمیراتی کام شروع کر دیا۔
بھاری مشینری، خاص طور پر کرین کی مدد سے تمام تیار شدہ حصے اپنی اپنی جگہ پر نصب کیے گئے۔
اگلے دن صبح 5:45 پر جب پہلی ٹرین پہنچی، تو اسٹیشن مکمل طور پر تیار اور فعال حالت میں موجود تھا۔
اگرچہ عمارت کی بیرونی ساخت مکمل ہو چکی ہے، تاہم اندرونی آلات جیسے ٹکٹ مشینیں اور کارڈ اسکیننگ سسٹمز کی تنصیب تاحال جاری ہے۔
امید ہے کہ تمام کام جولائی تک مکمل کر لیا جائے گا اور اس کے بعد اسٹیشن کو عوام کے لیے باضابطہ کھول دیا جائے گا۔
ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ اگر یہی منصوبہ روایتی طریقے سے مکمل کیا جاتا تو اس میں کم از کم دو ماہ کا وقت اور دو گنا لاگت آتی۔
لیکن تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی نے نہ صرف وقت بلکہ افرادی قوت کی کمی کے چیلنج کو بھی بڑی خوبی سے حل کر دکھایا۔
جے آر ویسٹ انوویشنز کے صدر، ریو کاواموٹو نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ منصوبہ مستقبل کے ان تمام علاقوں کے لیے مشعلِ راہ بن سکتا ہے جہاں افرادی قوت کی قلت اور انفراسٹرکچر کی کمی کا سامنا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں کم افراد کے ساتھ تیز رفتار، مؤثر اور کم لاگت پر تعمیرات ممکن بنائی جا سکتی ہیں۔”