واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر دنیا کی سب سے بڑی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا۔ مرکزی بینک کے چیئرمین جیروم پاؤل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں ’بڑا نقصان اٹھانے والا‘ قرار دیا، اور ساتھ ہی شرح سود میں فوری کمی کا مطالبہ کیا۔ سوشل میڈیا پر ان کا یہ دھماکہ خیز پیغام نہ صرف وال اسٹریٹ بلکہ عالمی منڈیوں میں بھی زلزلہ لے آیا۔
ٹرمپ کی دھمکیوں اور پالیسیوں کے گرد منڈلاتی غیر یقینی صورتحال کے باعث سرمایہ کاروں کا اعتماد لرز گیا، اور امریکی ڈالر پیر کے روز ایک دہائی کی کم ترین سطح پر پہنچ گیا۔ یورو 1.1535 ڈالر کی بلند ترین سطح پر جا پہنچا، جبکہ سوئس فرانک کے مقابلے میں ڈالر 10 سال کی کم ترین سطح 0.8063 پر گر گیا۔ جاپانی ین کے مقابلے میں بھی ڈالر 140.66 پر آ گیا — جو سات ماہ کی نچلی ترین سطح ہے۔
معاشی مبصرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں، بھاری محصولات اور اب فیڈرل ریزرو پر دباؤ نے ایک نیا بحران جنم دیا ہے۔ مِزُوہو کے وشنو ورتھن نے خبردار کیا کہ اگر مرکزی بینک کی خودمختاری کو صدارتی خواہشات کے تابع کر دیا گیا تو قیمتوں اور روزگار کے حوالے سے پالیسی سازی ’غیر متوقع جھٹکوں‘ سے دوچار ہو سکتی ہے۔
وائٹ ہاؤس کے معاشی مشیر کیون ہیسیٹ نے اشارہ دیا ہے کہ صدر پاؤل کو برطرف کرنے کے قانونی امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں، حالانکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا اقدام ایک مشکل اور متنازعہ راستہ ہو گا۔
ٹورنٹو کے ماہر کارل شیموٹا کے مطابق، اگر فیڈرل ریزرو کے دوہرے مینڈیٹ یعنی قیمتوں کا استحکام اور مکمل روزگار کو صدارتی ایجنڈے کے تابع کر دیا گیا، تو امریکی معیشت پالیسی کے عدم توازن کا شکار ہو سکتی ہے۔ادھر امریکی اسٹاک مارکیٹ بھی اس بھونچال کی لپیٹ میں آ گئی۔ پیر کو ‘میگنیفینٹ سیون’ میگا کیپ گروتھ اسٹاکس شدید دباؤ کا شکار ہوئے، اور تینوں بڑے انڈیکس میں 2 فیصد سے زائد کمی دیکھی گئی۔
یورپی منڈیاں اگرچہ ایسٹر کے باعث خاموش تھیں، لیکن کرنسی مارکیٹس میں ہلچل مچی رہی۔ آسٹریلوی ڈالر 4 ماہ کی بلند ترین سطح 0.6430 ڈالر، نیوزی لینڈ کا ڈالر 0.6000 ڈالر پر پہنچ گیا، جبکہ اسٹرلنگ نے 1.34 ڈالر کی سطح پر ستمبر کے بعد نئی بلندی چھو لی۔یہ وقت امریکی ڈالر کے لیے ایک ’بوفے‘ جیسا ہے ہر کرنسی اپنی سطح بلند کر رہی ہے اور امریکی معیشت دفاعی پوزیشن میں ہے۔ ٹرمپ کے اقدامات نے اس بحث کو پھر زندہ کر دیا ہے کہ کیا ایک جمہوری ملک میں مرکزی بینک واقعی آزاد ہوتا ہے؟ کیا صدر اپنے سیاسی مقاصد کے لیے شرح سود اور مالیاتی پالیسی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں؟دنیا کی نظریں اب جیروم پاؤل اور ان کی ٹیم پر ہیں کیا وہ سیاسی دباؤ کے آگے جھکیں گے یا معیشت کی خودمختاری کی جنگ میں ڈٹ کر کھڑے ہوں گے