پاکستان نے بھارت کی جانب سے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام میں رکاوٹ ڈالنے اور اسے سیاست زدہ کرنے کی کوششوں کو ایک مضبوط پیغام دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کے آئی ایم ایف پروگرام پر نظرثانی کے مطالبے کا مقصد سیاسی کشیدگی کو مزید بڑھانا ہے، خاص طور پر جب دونوں ممالک کے درمیان حالات پہلے ہی کشیدہ ہیں۔
بھارت کا یہ مطالبہ پہلگام حملے کے بعد سامنے آیا ہے، جس سے نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ بڑھا، بلکہ بھارت کی جانب سے عالمی اداروں پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں بھی تیز ہو گئیں۔ تاہم، پاکستان نے واضح طور پر بھارت کے اس منفی بیانیہ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر ملک کی پائیدار معاشی ترقی اور استحکام کے لیے کام کرتا رہے گا۔
پاکستان نے اس بات پر زور دیا کہ وہ میکرو اکنامک استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے تمام عزم کے ساتھ کام کر رہا ہے اور عالمی مالیاتی اداروں کی مدد سے ملک کی معیشت کو استحکام کی جانب گامزن کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ بھارت کا آئی ایم ایف پروگرام پر منفی اثرات ڈالنے والا بیانیہ سندھ طاس معاہدے کی غیرقانونی معطلی جیسا ہے، جو عالمی قوانین اور اداروں کی توہین کرتا ہے۔
پاکستان کی معیشت، جو کہ 350 ارب ڈالر کی مالیت کی حامل ہے، آئی ایم ایف کے امدادی پروگرامز کے ذریعے ایک نیا رخ اختیار کر چکی ہے۔ گزشتہ سال پاکستان نے آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالر کا بیل آؤٹ پیکیج حاصل کیا تھا، جس نے ملک کی معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچایا اور اسے استحکام کی طرف گامزن کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مارچ 2025 میں پاکستان کو ایک اور اہم قدم کے طور پر 1.3 ارب ڈالر کا Climate Resilience Loan بھی دیا گیا، جو اس بات کا غماز ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کی اقتصادی بہتری اور ترقی میں کردار ادا کر رہے ہیں۔
پاکستان کا یہ موقف واضح ہے کہ وہ اپنے عالمی اقتصادی تعلقات میں شفافیت، استحکام، اور ترقی کی راہ پر گامزن ہے، اور کسی بھی غیر ضروری رکاوٹ یا سیاست زدہ اقدامات کو برداشت نہیں کرے گا۔ عالمی سطح پر پاکستان کا یہ پیغام مضبوط اور مؤثر انداز میں پہنچا ہے کہ ملک اپنی معاشی ترقی کے لیے سنجیدہ ہے اور اس راہ میں کسی بھی بیرونی دباؤ کو تسلیم نہیں کرے گا۔ یہ پاکستان کی جانب سے عالمی سطح پر ایک مضبوط اور پختہ موقف کا اظہار ہے، جو کہ اس کے معاشی استحکام اور ترقی کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہو گا