بدھ کے دن امریکی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ غزہ کی جنگ بندی پر بات چیت دوحہ میں بدستور جاری رہی ہے۔وزارت خارجہ کے علاقائی ترجمان سموئیل ور برگ نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن جنگ بندی چاہتا ہے کیونکہ یہ اُن کے مفاد کا حصہ ہے۔ ترجمان نے کہا کہ "ہم اسرائیل اور حماس پر دباؤ ڈالنے کے لئے اپنے تمام ذریعے استعمال کریں گے تا کہ جنگ کا خاتمہ ہو سکے۔
وربرگ کہا کہ ہم اسرائیل کے ساتھ ہیں اُن کو جب بھی ہماری ضرورت ہوگی وہ ہمیں اپنے ساتھ کھڑا پائیں گے ، ان کے لیے ہمارے دروازے کھلے ہیں۔ ہم اپنی گزارشات سے متعلق اُن کو پیغام ارسال کرتے رہتے ہیں۔
ترجمان نے اس بات کو واضع کرتے ہوئے کہا کہ ہماری ترجیحات ہمیشہ سے ہمارے قومی مفادات ہوتے ہیں ، چاہے وہ اسرائیل کے ساتھ ہوں یا کسی اور ملک کے ساتھ ہوں ۔
قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے امریکہ کے ادارے "سی این این "کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ رواں ہفتے میں اسرائیل پر کیے گئے حملے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل جنگ بندی میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہا ۔اسے کسی بھی مذاکرات سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا ،لہٰذا جنگ بندی کے لیے کیے گئے مذاکرات میں اسرائیل کا کوئی عمل داخل نہیں ہے۔
یاد رہے کہ جب حماس نے امریکی شہریت رکھنے والے اسرائیلی فوجی "عیدان الگزینڈر” کو رہا کیا تو اسرائیل نے پیر کے دن غزہ پر اپنی تمام تر فضائی کارروائیوں کو روک دیا تھا تاہم عیدان الیگزینڈر کی رہائی کے بعد منگل کے دن اسرائیل نے پھر سے غزہ پر حملے شروع کر دیئے ۔
اسرائیلی وفد بروز منگل کو دوحہ پہنچا تا کہ غزہ میں جنگ بندی کے متعلق بات چیت کی جائے اور مذاکرات کو آ گے بڑھایاجاسکے۔حماس کے دو اعلیٰ عہدے داران نے بتایا کہ دوحہ میں واشنگٹن سے بات چیت جاری ہے جس میں کچھ حد تک پیش رفت بھی ہوئی ہے۔
غزہ جنگ بندی کا معاہدہ گزشتہ چند ہفتوں سے تعطل کا شکار ہے جس کا ذمہ دار حماس اور اسرائیل، ایک دوسرے کو ٹھہرا رہے ہیں ۔